آیت 25
 

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے نہیں بلکہ (سب) آئیں گے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

تفسیر آیات

یہ مسلمانوں سے من حیث الامّۃ خطاب ہے کہ جہاں انفرادی طور پر گناہوں اور نا فرمانیوں سے بچنا ضروری ہے، وہاں اجتماعی طور پر ایسے فتنوں سے بچنا ضرور ی ہے جس کے منفی اثرات صرف مجرموں تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری امت اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے میں انفرادی ذمہ داری کے ساتھ ہر فرد پر اجتماعی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ جیسا کہ مشہور حدیث ہے:

کلّکم راع و کلّکم مسؤل عن رعیتہ ۔ (بحار الانوار ۷۲: ۳۸)

تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

ذیل میں ہم چند ایسے فتنوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو اس آیت کا مصداق بن سکتے ہیں :

i۔ حکمرانوں کی خیانت ایسے فتنوں میں سر فہرست ہے کہ جس کی وجہ سے ایک امت اقتصادی، عسکری اور ثقافتی میدانوں میں دوسرے کی محتاج، دست نگر اور پسماندہ رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہماری معاصر تاریخ کی مسلم امہ کا حال ہے، جس میں مسلم حکمرانوں کی خیانت کی وجہ سے مسلم امہ پر اغیار کی ہر میدان میں بالادستی ہے اور ان کا ہر میدان میں استحصال ہو رہا ہے۔

ii۔ تفرقہ بازی: اس میں اگرچہ چند تنگ نظر لوگ ملوث ہوتے ہیں مگر ان کے منفی اثرات پوری قوم پر مترتب ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کی فکری اور مادی طاقتوں کا ایک بہت بڑا معتدبہ حصہ آپس کی نفرتوں اور تفرقہ بازوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

iii۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ متروک ہونے کی صورت میں اخلاقی فسادات عام ہو جاتے ہیں اور لوگوں میں اجتماعی شعور بیدار نہ ہونے کی وجہ سے ظالم حکمرانوں کا استبدادی نظام قائم ہو جاتا ہے۔

الدر المنثور میں آیا ہے۔ زبیر نے کہا: ہم ایک مدت تک یہ آیت پڑھتے رہے اور ہمارا خیال نہ تھا کہ ہم اس کے مصداق ہیں۔ ابھی معلوم ہوا کہ نحن المعنیون بھا اس آیت کا اشارہ ہماری طرف ہے۔

اہم نکات

۱۔ امتوں کا زوال و انحطاط ایسے جرائم سے ہوتا ہے جس کے اثرات پوری امت پر مترتب ہوتے ہیں۔

۲۔ زوال و انحطاط میں مجرم کے ساتھ، اس پر سکوت اختیار کرنے والا بھی شامل ہے۔


آیت 25