آیت 29
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تفسیر آیات

تقویٰ کی تین اہم خصوصیات ہیں : پہلی خصوصیت، حق و باطل میں تمیز: حق و باطل کی تمیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں ایک کسوٹی رکھی ہے جسے ضمیر اور وجدان کہتے ہیں لیکن اکثر اوقات خواہشات نفسانی اس کسوٹی پر اپنا کثیف پردہ ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کی یہ قوت ماند پڑ جاتی ہے۔ اب دلیل و منطق اس پر اثر نہیں کرتی۔ اس کو حق، باطل اور باطل، حق دکھائی دیتا ہے۔ دعوت حق پر لبیک کہنے کی بجائے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے مگر اہل تقویٰ کا ضمیر شفاف، وجدان صاف ہوتا ہے۔ اس کا زندہ احساس، بیدار عقل، اس کی بصیرت اوراس کا صاف و شفاف ضمیر ہر موڑ، ہر مشکل، ہر اختلاف اور ہر تفرقہ کی صورت میں انہیں بتا دیتا ہے کہ کون سا راستہ باطل کی طرف جاتا ہے اور کون سا راستہ حق کی طرف۔ کس قدم میں اللہ کی رضایت ہے اور کس میں اس کی رضایت نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

اتَّقُوا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ ۔ (اصول الکافی ۱: ۲۱۸ باب ان المتوسمین ذکرھم ۔۔۔۔)

مؤمن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ نور خدا کے ذریعے دیکھتا ہے۔

اس کی آنکھوں کے سامنے پردہ نہیں ہوتا۔ وہ راہ گم نہیں کرتا۔

مولانا روم کہتے ہیں :

چونکہ تقویٰ بست دو دست ہوا

حق کشاید ہر دو دست عقل را

تقویٰ نے خواہشات کے دونوں ہاتھ باندھ دیے تو اللہ تعالیٰ نے عقل کے دونوں ہاتھ کھول دیے۔

۱۔ وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ: تقویٰ کی دوسری خصوصیت گناہوں کو مٹا دینا ہے۔ گناہ کو مٹانے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ گناہ کے محرک کو مٹا دیتا ہے۔ جس کے پاس تقویٰ جیسا شعور موجود ہو۔ اس پر گناہ کی رغبت غالب نہیں آتی اور دوسری یہ کہ اللہ گناہ کے اثرات کو مٹا دیتا ہے۔ یعنی تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو چونکہ اس کا ضمیر زندہ ہے فوراً اس گناہ کی تلافی کرتا ہے۔

۲۔ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو اللہ خود معاف فرماتا ہے۔ چونکہ باتقویٰ انسان صرف چھوٹے گناہوں کا ارتکاب کرے گا جن کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔

۳۔ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ: تقوی والے ہی اللہ کے عظیم فضل کے لیے اہل بن سکتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

فَاِنَّ تَقْوَی اللہِ مِفْتَاحُ سِدَادٍ وَ ذَخِیرَۃُ مَعَادٍ وِ عِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَۃٍ وَ نَجَاۃٌ مِنْ کُلِّ ھَلَکَۃٍ بِھَا یَنْجَحُ الطَّالِبُ وَ یَنْجُوالْھَارِبُ وَ تُنَالُ الرَّغَائِبُ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۲۳۰)

بے شک تقوائے الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ (خواہشوں کی) ہر غلامی سے آزادی اور ہر تباہی سے رہائی کا باعث ہے۔ اس کے ذریعہ طلبگار منزل مقصود تک پہنچتا اور (سختیوں سے) بھاگنے والا نجات پاتا ہے اور مطلوبہ چیزوں تک پہنچ جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ بندے کو تقویٰ کے ذریعے اپنے اندر اہلیت پیدا کرنا ہو گی تاکہ وہ فرقان (حق و باطل میں تمیز کی کسوٹی) اور فضل عظیم کا سزاوار بن جائے: اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 29