بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱﴾

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اس اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو بادشاہ نہایت پاکیزہ، بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔

2۔ جس قوم کو یہود اُمِّی کہتے ہیں اور اپنے مقابلے میں ناخواندہ اور ذلیل سمجھتے ہیں، اللہ نے اسی قوم سے ایک نبی مبعوث فرمایا اور یہود کو اسی قوم کے ہاتھوں ذلت اٹھانا پڑی۔

فِی الۡاُمِّیّٖنَ : ناخواندہ لوگوں میں۔ یعنی اس رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ناخواندہ لوگوں میں سے مبعوث کیا۔ یہ نہیں فرمایا: اِلَی الْاُمِّيّٖنَ ناخواندہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا۔

وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ : یہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی بھی۔ کتاب کی تعلیم سے مراد احکام شریعت، حلال و حرام کی تعلیم ہے۔ حکمت کی تعلیم حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ تمام مشکلات کی بنیاد حقائق تک رسائی نہ ہونا ہے۔ حقائق تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان ایک موہوم چیز کے پیچھے اپنی زندگی تلف کر دیتا ہے۔ زندگی ایک سراب کی مانند ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام لوگوں کو سراب سے نکالنا ہے۔

وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۳﴾

۳۔ اور (ان) دوسرے لوگوں کے لیے بھی (مبعوث ہوئے) جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

3۔ یعنی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت اس اُمِّی قوم تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کی رسالت قیامت تک آنے والی قوموں کے لیے بھی ہے۔

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۴﴾

۴۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے وہ چاہتا ہے وہ عنایت فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔

4۔ اس فضل سے مراد رسالت ہو سکتی ہے اور ممکن ہے اس سے مراد آنے والی نسلیں ہوں جو اس رسالت کی تعلیم کتاب و حکمت سے فائد اٹھانے والی ہیں۔

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔ ان کی مثال جن پر توریت کا بوجھ ڈال دیا گیا پھر انہوں نے اس بوجھ کو نہیں اٹھایا، اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، بہت بری ہے ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔

5۔ یہود جو عربوں کو بڑی حقارت سے اُمِّی (ناخواندہ) کہکر پکارتے ہیں، خود اگر کتاب اٹھائے پھرتے ہیں تو گدھوں کی طرح ہیں، جو بوجھ کے سوا اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ کہدیجئے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو دوسرے لوگ نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

6۔ یہود اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم سمجھتے ہیں، قرآن اس بنیاد پر ان سے آرزوئے موت کا مطالبہ کرتا ہے کہ تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو اپنے محبوب سے ملنے کی تمنا کرو جس نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے۔ حقیقی ولی اللہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وَاللہِ لَابْنُ اَبِی طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیٍ اُمِّہِ ۔ (نہج البلاغۃ خ 5 ص 54) یعنی قسم بخدا ابو طالب کے فرزند کو موت کے ساتھ اس سے زیادہ انس ہے جو ایک بچے کو اپنی ماں کی چھاتی سے ہوتا ہے۔

وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور یہ اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کے سبب موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

قُلۡ اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِیۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیۡکُمۡ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۸﴾

۸۔ کہدیجئے: وہ موت جس سے تم یقینا گریزاں ہو اس کا تمہیں یقینا سامنا کرنا ہو گا پھر تم غیب و شہود کے جاننے والے کے سامنے پیش کیے جاؤگے پھر وہ اللہ تمہیں سب بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

9۔ ندا سے مراد اذان ہے۔ نماز اسلامی نظام کا ایک ریاستی فریضہ ہے۔ اس لیے امامیہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ اذان قانونی اسلامی ریاست کی طرف سے ہو تو نماز کے لیے حاضر ہونا واجب عینی ہے، لیکن اگر قانونی ریاست قائم نہ ہو تو نماز جمعہ کے واجب تعیینی یا تخییری ہونے میں اختلاف ہے۔ اکثر فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ جمعہ اور ظہر میں اختیار ہے۔ ظہر کی چار رکعات کی جگہ جمعہ کی نماز دو خطبوں اور دو رکعتوں پر مشتمل ہے۔ دو رکعتوں کی جگہ دو خطبوں کا مطلب یہ ہے کہ خطیب دو رکعتوں میں قبلے کی طرف رخ کرنے کی بجائے لوگوں کی طرف رخ کرے کہ یہاں لوگوں سے سروکار ہے۔ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور ان کی تعلیم و تربیت عبادت کا حصہ ہے، لہٰذا خطبے میں کوئی انسان ساز، بامقصد اور تعمیری پیغام نہ ہو یا مقامی زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ پیغام قابل فہم نہ ہو تو جمعہ کی افادیت برقرار نہیں رہتی۔

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو (اپنے کاموں کی طرف) زمین میں بکھر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا انۡفَضُّوۡۤا اِلَیۡہَا وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ مِّنَ اللَّہۡوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑے چھوڑ دیا، کہدیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

11۔ یہ آیت اس مؤقف کی صراحت کے ساتھ نفی کرتی ہے کہ اصحاب سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی اور اگر ہوئی ہے تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صادر ہونے والی غلطی کا ذکر اس قرآن میں کیا ہے جسے قیامت تک پڑھا جانا ہے اور آیت کے اس جملے سے ”جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشا سے بہتر ہے“ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے کھیل تماشے کو اس چیز پر ترجیح دی تھی جو اللہ کے پاس ہے۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ ہجرت سے پہلے انصار نے مدینے میں بیاضہ کے مقام پر جمعہ قائم کیا اور اس میں 40 افراد نے شرکت کی۔ سورہ جمعہ 7 ہجری میں نازل ہوا۔ اس زمانے میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودگی میں نمازیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گئی ہو گی۔ ان میں سے صرف بارہ افراد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ گئے، باقی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر کھیل تماشے کی طرف لپک گئے۔ چنانچہ صحیح مسلم کتاب الجمعۃ اور صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمہ کے روز خطبہ دے رہے تھے۔ شام سے ایک قافلہ پہنچ گیا تو سب لوگ چلے گئے۔ صرف بارہ افراد رہ گئے۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری حدیث 884 کتاب الجمعۃ۔ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جو زمخشری نے اپنی تفسیر 4: 536 میں ذکر کی ہے: اگر سب لوگ چلے جاتے تو وادی میں آگ بھڑک اٹھتی۔