تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ (وہ یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اپنی جانوں اور اپنے اموال سے راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم جان لو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اللہ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی جنتوں میں پاکیزہ مکانات ہوں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

12۔ اس تجارت میں جو سرمایہ لگایا جاتا ہے، وہ ایک نا پائیدار وقتی زندگی اور مال ہے جس نے ہر صورت میں ختم ہونا ہے اور اس سے جو نفع حاصل ہو گا وہ دائمی عذاب سے نجات اور ابدی نعمتوں والی جنت میں داخل ہونا ہے۔اس آیت میں ایمان والوں سے خطاب کر کے فرمایا: اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لاؤ۔ یعنی جب اس ایمان پر جہاد جیسی دلیل موجود نہ ہو، وہ ایمان نہیں ہے۔

وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور وہ دوسری (بھی) جسے تم پسند کرتے ہو (عنایت کرے گا اور وہ ہے) اللہ کی طرف سے مدد اور جلد حاصل ہونے والی فتح اور مومنین کو (اس کی) بشارت دے دیجئے۔

13۔ دوسرا نفع جو اس تجارت سے حاصل کرو گے وہ دنیا میں فتح و کامرانی ہے، جو جہاد کے ذریعے ہی حاصل کر سکو گے۔ یعنی جہاد میں ثواب دارین ہے، آخرت میں نجات اور دنیا میں فتح و نصرت کی کامیاب زندگی۔ اس آیت سے جو مفہوم نکلتاہے وہ یہ ہے کہ جس فرد اور قوم میں جہاد بالنفس و المال نہیں ہے، اسے آخرت میں نجات اور دنیا میں کامیاب زندگی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ آیت میں جہاد سے پہلے ایمان کی شرط عائد کی اور ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بھی شرط ہے۔ کیونکہ ایمان بالرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بغیر ایمان باللہ ممکن نہیں ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: کون ہے جو راہ خدا میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں، پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے انکار کیا لہٰذا ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی اور وہ غالب ہو گئے۔

14۔ اے ایمان والو! انصار اللہ بن جاؤ۔ یہ ایک اعزاز و تکریم ہے کہ انسان خدائے بے نیاز کے انصار بن جائیں۔ یعنی اعلائے کلمہ حق کے لیے ارادہ خدا کے نفاذ کا ذریعہ بن جائیں۔ اس سے بڑی عزت و تکریم کیا ہو سکتی ہے۔