آیت 6
 

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ کہدیجئے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو دوسرے لوگ نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا: یہودیو کہہ کر نہیں، یہودیت اختیار کرنے والو کہہ کر اس لیے پکارا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین وہی دین ابراہیمی اور اسلام کا دین ہے۔ یہود کا نام تو ان کی داخلی فرقہ بندی کے بعد اختیار کیا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب ان کی سلطنت دو فرقوں میں تقسیم ہوئی تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹھے یہودا کی نسل کے قبیلے نے اپنی ریاست کا نام یہود رکھ دیا اور دوسرا فرقہ اسرائیل کے نام سے موسوم تھا جو ختم ہو گیا۔

اس لیے قرآن نے فرمایا: اے لوگو جو اپنے آپ کو یہود کے نام سے موسوم کرتے ہو!

۲۔ اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ: تمہارا زعم ہے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں اور دعویٰ ہے:

نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۸)

ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔

تو تمہیں لقاء اللّٰہ کا اشتیاق ہونا چاہیے۔ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیے تمہارے اندر تڑپ ہونی چاہیے۔ اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو اپنے محبوب سے ملنے کی تمنا کرو جس نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے۔ چنانچہ امام الاولیآء علیہ السلام سے مروی یہ فرمان مشہور ہے:

وَ اللّٰہِ لَابْنُ اَبِی طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہِ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۵)

خدا کی قسم ابو طالب کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا۔


آیت 6