رسولؐ کی آمد، یہودیوں کی ذلت


ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔

2۔ جس قوم کو یہود اُمِّی کہتے ہیں اور اپنے مقابلے میں ناخواندہ اور ذلیل سمجھتے ہیں، اللہ نے اسی قوم سے ایک نبی مبعوث فرمایا اور یہود کو اسی قوم کے ہاتھوں ذلت اٹھانا پڑی۔

فِی الۡاُمِّیّٖنَ : ناخواندہ لوگوں میں۔ یعنی اس رسول ﷺ کو ناخواندہ لوگوں میں سے مبعوث کیا۔ یہ نہیں فرمایا: اِلَی الْاُمِّيّٖنَ ناخواندہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا۔

وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ : یہ رسول ﷺ لوگوں کو کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی بھی۔ کتاب کی تعلیم سے مراد احکام شریعت، حلال و حرام کی تعلیم ہے۔ حکمت کی تعلیم حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ تمام مشکلات کی بنیاد حقائق تک رسائی نہ ہونا ہے۔ حقائق تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان ایک موہوم چیز کے پیچھے اپنی زندگی تلف کر دیتا ہے۔ زندگی ایک سراب کی مانند ہو جاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کا کام لوگوں کو سراب سے نکالنا ہے۔