وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا انۡفَضُّوۡۤا اِلَیۡہَا وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ مِّنَ اللَّہۡوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑے چھوڑ دیا، کہدیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

11۔ یہ آیت اس مؤقف کی صراحت کے ساتھ نفی کرتی ہے کہ اصحاب سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی اور اگر ہوئی ہے تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صادر ہونے والی غلطی کا ذکر اس قرآن میں کیا ہے جسے قیامت تک پڑھا جانا ہے اور آیت کے اس جملے سے ”جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشا سے بہتر ہے“ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے کھیل تماشے کو اس چیز پر ترجیح دی تھی جو اللہ کے پاس ہے۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ ہجرت سے پہلے انصار نے مدینے میں بیاضہ کے مقام پر جمعہ قائم کیا اور اس میں 40 افراد نے شرکت کی۔ سورہ جمعہ 7 ہجری میں نازل ہوا۔ اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں نمازیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گئی ہو گی۔ ان میں سے صرف بارہ افراد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ گئے، باقی رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر کھیل تماشے کی طرف لپک گئے۔ چنانچہ صحیح مسلم کتاب الجمعۃ اور صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمہ کے روز خطبہ دے رہے تھے۔ شام سے ایک قافلہ پہنچ گیا تو سب لوگ چلے گئے۔ صرف بارہ افراد رہ گئے۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری حدیث 884 کتاب الجمعۃ۔ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جو زمخشری نے اپنی تفسیر 4: 536 میں ذکر کی ہے: اگر سب لوگ چلے جاتے تو وادی میں آگ بھڑک اٹھتی۔