یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

9۔ ندا سے مراد اذان ہے۔ نماز اسلامی نظام کا ایک ریاستی فریضہ ہے۔ اس لیے امامیہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ اذان قانونی اسلامی ریاست کی طرف سے ہو تو نماز کے لیے حاضر ہونا واجب عینی ہے، لیکن اگر قانونی ریاست قائم نہ ہو تو نماز جمعہ کے واجب تعیینی یا تخییری ہونے میں اختلاف ہے۔ اکثر فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ جمعہ اور ظہر میں اختیار ہے۔ ظہر کی چار رکعات کی جگہ جمعہ کی نماز دو خطبوں اور دو رکعتوں پر مشتمل ہے۔ دو رکعتوں کی جگہ دو خطبوں کا مطلب یہ ہے کہ خطیب دو رکعتوں میں قبلے کی طرف رخ کرنے کی بجائے لوگوں کی طرف رخ کرے کہ یہاں لوگوں سے سروکار ہے۔ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور ان کی تعلیم و تربیت عبادت کا حصہ ہے، لہٰذا خطبے میں کوئی انسان ساز، بامقصد اور تعمیری پیغام نہ ہو یا مقامی زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ پیغام قابل فہم نہ ہو تو جمعہ کی افادیت برقرار نہیں رہتی۔