آیت 11
 

وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا انۡفَضُّوۡۤا اِلَیۡہَا وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ مِّنَ اللَّہۡوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑے چھوڑ دیا، کہدیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

تفسیر آیات

ا۔ وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا: اس زمانے میں کوئی تجارتی قافلہ مدینہ پہنچتا تو لوگوں کی اطلاع کے لیے طبل بجایا جاتا تھا۔ ایک جمعے کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اس وقت شام سے ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ طبل بجا تولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حالت خطبہ میں چھوڑ کر چلے گئے۔

قتادہ کی روایت کے مطابق اس قسم کا واقعہ تین بار پیش آیا۔ ( تفسیر کبیر رازی ذیل آیت) اسی تفسیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ شادیوں کے موقع پر لوگ باجے بجاتے تھے تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ کر اس لہو کی طرف چلے جاتے۔

اگر ہم نماز جمعہ اور رسول کو چھوڑ کر تجارت کی طرف جانے میں بشری کمزوری کا لحاظ رکھ بھی لیں، لہو کی طرف جانے میں کوئی مجبوری نہ تھی اور تفہیم القرآن نے جو عذر پیش کیا ہے وہ تجارت کے بارے میں مسموع ہو سکتا ہے لیکن لہو کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔

پھر اس حدیث کی کیا توجیہ ہو سکتی ہے جسے زمخشری نے کشاف میں ذکر کیا ہے: اگر سب لوگ چلے جاتے تو وادی میں آگ بھڑک اُٹھتی۔

پھر سورہ جمعہ سات ہجری میں یہودیوں کے انخلاء کے بعد فتح خیبر کے دنوں میں نازل ہوئی۔ اس وقت معیشت کافی بہتر تھی۔ اس آیت اور اس واقعہ سے دو باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں:

ایک یہ کہ تمام صحابہ عادل ہیں کا نظریہ اس آیت سے متصادم ہے۔

دوسرا یہ کہ اصحاب کی کمزوریوں کا ذکر طعن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ایک ایسی سورہ میں جو اجتماعی عبادت میں پڑھی جاتی ہے اس کمزوری کا ذکر فرماتا ہے اور ہر نمازی اسے اپنی نماز میں پڑھتا ہے تو انسان کے لیے ایسا کرنا کیوں ممنوع ہو گا؟

ہمارا موقف یہ ہے کہ جو کمزوریاں سرزد ہوئی ہیں ان کا ذکر کرنا طعن نہیں ہے اور کسی ناکردہ گناہ کی نسبت دینا بہتان اور گناہ عظیم ہے۔

۲۔ وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا: اور اے رسول آپ کو کھڑے چھوڑ دیا۔ ایک تو یہ بات ہے کہ نماز چھوڑ کر مسجد سے چھوڑ کر نکل گئے۔ دوسری بات یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ کر نکل گئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ چھوڑ کر نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات چھوڑ کر نکل گئے۔ اسی جرم کی سنگینی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اگر سب چلے جاتے تو مدینہ کی وادی میں آگ بھڑک اٹھتی لیکن بعض اصحاب کی حاضری اور نہ نکلنے کی وجہ سے سب کو امان مل گئی۔ متعدد احادیث ہیں کہ بعض ہستیاں ایسی ہیں جو اہل ارض کے لیے باعث امان ہیں۔

۳۔ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ: نمازی کو جو چیز نماز سے مل رہی ہے خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معیت میں نماز سے جو فیض مل رہا تھا وہ اس تجارت سے کہیں بہتر ہے جس کی طرف وہ نماز چھوڑ کر چلے گئے۔

۴۔ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ: درست ہے تجارت حصول رزق کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر یہ تجارت نماز کے مقابلے میں آ جائے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے ملنے والا رزق، اس رزق سے بہتر ہے جو تجارت کے ذریعہ ملتا ہے۔


آیت 11