یہودیوں کو مسکت جواب


قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ کہدیجئے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو دوسرے لوگ نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

6۔ یہود اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم سمجھتے ہیں، قرآن اس بنیاد پر ان سے آرزوئے موت کا مطالبہ کرتا ہے کہ تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو اپنے محبوب سے ملنے کی تمنا کرو جس نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے۔ حقیقی ولی اللہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وَاللہِ لَابْنُ اَبِی طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیٍ اُمِّہِ ۔ (نہج البلاغۃ خ 5 ص 54) یعنی قسم بخدا ابو طالب کے فرزند کو موت کے ساتھ اس سے زیادہ انس ہے جو ایک بچے کو اپنی ماں کی چھاتی سے ہوتا ہے۔