آیت 9
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

تفسیر آیات

۱۔ اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ: جب نماز کے لیے ندا دی جائے۔ ندا سے مراد اذان ہے لیکن اذان شرط وجوب نہیں ہے۔ بالفرض اگر کوئی اذان نہ دے تو بھی نماز جمعہ واجب ہے۔ لہٰذا اس ندا سے مراد عادل امام کی حکومت کی ندا ہے۔ نماز جمعہ اسلامی نظام کا ایک ریاستی فریضہ، سیاسی عبادت اور عبادی سیاست ہے بشرطیکہ اس نظام میں عبادت اور سیاست میں تصادم نہ ہو۔

سیاست یعنی ریاستی نظام کی درستگی اور مفاد عامہ کا تحفظ وغیرہ ہے۔ نماز جمعہ اسلامی ریاست کا اہم حصہ ہونے کی وجہ اس نماز کا حکومت کی طرف سے قائم ہونا اور ریاست کے نمائندے کا نماز پڑھانا ہے۔ اسی وجہ سے قبلہ رخ ہو کر دو رکعت کی جگہ لوگوں کی طرف رخ کر کے دو خطبے دیے جاتے ہیں چونکہ اس عبادت میں ریاست کو لوگوں سے کام ہے۔ اس لیے امامیہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ اذان قانونی اسلامی ریاست کی طرف سے ہو تو جمعہ نماز کے لیے حاضر ہونا واجب عینی ہے۔

عبداللہ بن عباس اور ابو مسعود انصاری کی روایت کے مطابق نماز جمعہ ہجرت سے قبل فرض ہو گئی تھی لیکن مکہ میں اسلامی ریاست قائم نہ ہونے کی وجہ سے نماز جمعہ قائم نہیں فرمائی۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز جمعہ کی امامت کے لیے خود افراد کا تعین فرماتے تھے جس طرح قضاوت کے لیے افراد کا تعین خود فرماتے تھے۔ ( بیہقی السنن الکبری ۳: ۱۲۳۔ کنز العمال ۷: ۱۰۰ حدیث نمبر ۲۰۴۵۳)

لہٰذا فقہائے امامیہ کا اجماع نہیں ہے تو تقریباً اتفاق ضرور ہے اس بات پر کہ اقامۂ نماز جمعہ کے واجب عینی ہونے کے لیے امام معصوم یا ان کے نائب خاص کا موجود ہونا شرط ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نیابت عامہ کافی ہے یا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرات ابوبکر و عمر کے زمانے میں بھی نماز جمعہ کی ایک ہی اذان ہوتی تھی۔ حضرت عثمان کے زمانے میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے ایک اذان کا اضافہ کیا گیا۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک یہ اضافی اذان بدعت ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔

۲۔ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ: اجتماع کی وجہ سے اس دن کا نام جمعہ ہو گیا۔ پہلے یہ دن العروبۃ کے نام سے موسوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے ہجرت سے پہلے مدینہ میں بیاضہ کے مقام پر انصار نماز جمعہ قائم کرتے تھے۔

۳۔ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ: ذکر خدا کی طرف دوڑ پڑو۔ ذکر اللہ سے مراد نماز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نماز جمعہ کے لیے دوڑنا واجب ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پورے اہتمام کے ساتھ نماز میں حاضر ہو۔ تساہل کے ساتھ، کاہل اور بوجھل ہو کر نہیں، نماز کے لیے سکون وقار کے ساتھ جانے کا حکم ہے، دوڑنے کا نہیں۔

۴۔ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ: خرید فروخت ترک کر دو۔ صرف خرید و فروخت نہیں بلکہ ہر وہ کام جو ترک نماز جمعہ کا موجب بنے، ترک کرو۔ خرید و فروخت کا خاص کر ذکر اس لیے کیا ہے کہ جس زمانے میں یہ سورہ نازل ہوئی لوگ جمعے کے دن اطراف مدینہ سے چیزیں فروخت کرنے مدینہ لاتے اور لوگ عموماً خرید و فروخت میں مصروف ہو جاتے تھے۔

۵۔ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ: دنیوی کام چھوڑ کر ایک ہفتہ وار اجتماعی عبادت میں دوسرے لوگوں کے ساتھ شریک ہونے میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

۶۔ فَاسۡعَوۡا اور وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ سے نماز جمعہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔


آیت 9