بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱﴾

۱۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب برحق نازل کی ہے لہٰذا آپ دین کو اسی کے لیے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔

2۔ اس آیت میں دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم ہے۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ دین بے شائبہ اور شفاف ہو نیز اللہ کے دین کو اختیار کرنے کا واحد مقصد خود ذات الہٰی اور اس سے عشق و محبت ہو اور اس میں غیر اللہ کا کوئی شائبہ نہ ہو جو ایک مشکل کام ہے۔ دینداری آسان ہے، لیکن اس کو بے شائبہ اور شفاف بنانا مشکل ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے: تَصْفِیَۃُ الْعَمَلِ اَشَدُّ مِنَ الْعَمَلِ ۔ (الکافی 8: 22) عمل کو صاف و شفاف بنانا خود عمل سے زیادہ مشکل ہے۔

اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ فِیۡ مَا ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ﴿۳﴾

۳۔ آگاہ رہو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے اور جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور وں کو سرپرست بنایا ہے (ان کا کہنا ہے کہ) ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں، اللہ ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ جھوٹے منکر کو یقینا ہدایت نہیں کرتا ہے۔

3۔ مشرکین کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وہم و خیال سے بالاتر ہے۔ لہٰذا اس کی براہ راست عبادت نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم اس کی عبادت اس کی مقرب ہستیوں کے ذریعے بجا لاتے ہیں، جن کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے تدبیر کائنات کا کام سونپ رکھا ہے۔ وہ مقرب ہستیاں فرشتے، جن اور مقدس انسان ہیں اور یہ بت ان مقدس ہستیوں کی شبیہ ہیں، وہ خود نہیں۔ لیکن جاہل لوگ ان شبیہوں کو ذوات مقدسہ خیال کرتے ہیں۔ یہ ہے خلاصہ مشرکین کے عقائد کا۔ (ماخوذ از المیزان)

لَوۡ اَرَادَ اللّٰہُ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰی مِمَّا یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ﴿۴﴾

۴۔ اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا، وہ پاکیزہ ہے اور وہ اللہ یکتا، غالب ہے۔

4۔ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی بیٹا ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ اللہ کا حصہ ہے جو اس سے جدا ہوا ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بناتا تو اپنی مخلوق میں سے کسی کو بیٹا بنا لیتا۔ لیکن جب وہ مخلوق ہے تو بیٹا نہیں ہو سکتا۔ رہا یہ سوال اگر حقیقی بیٹا نہیں ہو سکتا تو کسی کو اعزازی بیٹا بنایا جائے تو کیا حرج ہے؟ جواب یہ ہے: اعزازی بیٹے کو باپ کے ساتھ بہت سے امور میں شریک بنایا جائے تو اعزازی ہو گا، جیسے ملکیت، تدبیر سلطنت وغیرہ میں۔ یہ بھی شرک کی ایک صورت ہے۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ۚ یُکَوِّرُ الَّیۡلَ عَلَی النَّہَارِ وَ یُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیۡلِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اَلَا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفَّارُ﴿۵﴾

۵۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے، یہ سب ایک مقررہ وقت تک چلتے رہیں گے، آگاہ رہو! وہی بڑا غالب آنے والا معاف کرنے والا ہے۔

خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ؕ یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اسی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے چوپاؤں میں سے آٹھ جوڑے بنائے، وہی تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں میں تین تاریکیوں میں ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت دیتا ہے، یہی اللہ تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

6۔ یکے بعد دیگرے تخلیقی مراحل سے مراد نطفہ، پھر لوتھڑا، پھر گوشت کا ٹکڑا اور پھر خلق آخر ہے۔ ظلمات ثلاث (تین پردوں) سے مراد شکم مادر، رحم اور مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ محفوظ ہوتا ہے) ہیں۔

اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنۡکُمۡ ۟ وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ ۚ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ مَّرۡجِعُکُمۡ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اگر تم کفر کرو تو یقینا اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کی بارگاہ کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یقینا وہ دلوں کا حال خوب جاننے والا ہے۔

7۔ اگر تم کفران نعمت کرو تو اس سے اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، البتہ اللہ کو یہ پسند نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم شکر کرو تو اس سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، البتہ یہ اللہ کو پسند ہے۔ اس کی مثال استاد شاگرد کی طرح ہے کہ اگر شاگرد محنت نہ کرے تو اس سے استاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، البتہ استاد کو یہ عمل پسند نہیں ہوتا اور اگر وہ محنت کرتا ہے تو استاد کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، البتہ استاد اسے پسند کرتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ کردار سے خود بندہ متاثر ہوتا ہے، اللہ نہیں۔

وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیۡبًا اِلَیۡہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعۡمَۃً مِّنۡہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدۡعُوۡۤا اِلَیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ وَ جَعَلَ لِلّٰہِ اَنۡدَادًا لِّیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ قُلۡ تَمَتَّعۡ بِکُفۡرِکَ قَلِیۡلًا ٭ۖ اِنَّکَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ﴿۸﴾

۸۔ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جسے پہلے پکارتا تھا اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کے لیے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کی راہ سے (دوسروں کو) گمراہ کر دے، کہدیجئے: اپنے کفر سے تھوڑا سا لطف اندوز ہو جا، یقینا تو جہنمیوں میں سے ہے۔

8۔ اضطراری حالت میں اس کی فطرت بیدار ہو جاتی ہے، غیر فطری دباؤ ہٹ جاتا ہے اور انسان اپنی فطرت سلیمہ سے سرگوشی کرتا ہے تو وہاں اسے صرف اللہ ہی نظر آتا ہے، پھر اسی کو پکارتا ہے۔ جب اضطراری حالت ختم ہو جاتی ہے تو معاشرتی عادات و رسوم، خواہشات اور مفادات کی طرف سے غیر فطری دباؤ شروع ہو جاتا ہے۔

اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ٪﴿۹﴾

۹۔ (مشرک بہتر ہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے، کہدیجئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

9۔ کیا یہ شخص جو آسودہ ہوتے ہی کفر اختیار کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو راتوں کی تنہائی کے اوقات میں اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف و رجاء اور امید و بیم میں رہتا ہے نیز آخرت کے روز حساب سے خائف اور رحمت الہٰی سے امیدیں وابستہ کیے رہتا ہے؟ اگر ان دونوں میں فرق نہ ہوتا تو علم رکھنے والوں اور علم نہ رکھنے والوں میں بھی فرق نہ ہوتا۔ کیونکہ اللہ کی بندگی راز زندگی سے آگہی سے مربوط ہے، جو راز حیات کو نہیں جانتا وہ اپنی عقل سے کام نہیں لے سکتا اور جو عقل سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زندگی کو معقولیت نہیں دے سکتا۔

اس آیت سے عالم کی یہ تعریف سامنے آتی ہے: عالم وہ ہے جو ابتدا اور آخر شب میں عبادت کرتا ہے۔ قیامت کا خوف اور رحمت الٰہی کی امید رکھتا ہے، خواہ اصطلاح میں وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو اور جاہل وہ ہے جس میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں، خواہ اصطلاح میں اسے سب سے بڑا علاّمہ سمجھا جاتا ہو۔

قُلۡ یٰعِبَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ؕ وَ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ ؕ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَہُمۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ کہدیجئے: اے میرے مومن بندو!اپنے رب سے ڈرو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، یقینا بے شمار ثواب تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔

10۔ تقویٰ کے نتائج و آثار کا ذکر ہے: جو لوگ اس دنیا میں نیکی بجا لائیں گے ان کے لیے حسنۃ ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی ہے، دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی۔ حسنۃ کے اطلاق کے اعتبار سے وَ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ کوئی سرزمین نیکی اختیار کرنے کے لیے مساعد نہیں ہے تو ہجرت کرو اور صبر کی طاقت سے استفادہ کرو۔ یعنی اگر انسان ایک جگہ اللہ کی بندگی نہیں کر سکتا تو دوسری جگہ جائے جہاں بندگی کر سکتا ہے۔