آیت 2
 

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب برحق نازل کی ہے لہٰذا آپ دین کو اسی کے لیے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ: سابقہ آیت میں تَنۡزِیۡلُ سے تعبیر فرمایا اور اس آیت میں اَنۡزَلۡنَاۤ فرمایا۔ اکثر کا یہ نظریہ ہے کہ تَنۡزِیۡلُ تدریجی نزول کو اور اَنۡزَلۡنَاۤ دفعتہً نزول کو کہتے ہیں۔ مجھے اس نظریے کو قبول کرنے میں تردد ہے کیونکہ آیہ لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً۔۔۔۔ (۲۵ فرقان: ۳۲) میں یکبارگی کے لیے نُزِّلَ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ لو لا انزلنا نہیں فرمایا۔ اس طرح دیگر قرآنی شواہد موجود ہیں جہاں اس مطلب کے تناظر میں قرآن کی تفسیر کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ بعض فرماتے ہیں تَنۡزِیۡلُ کا وزن تکثیر یعنی کثرت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ پھر لَوۡ لَا نُزِّلَ میں کہتے ہیں۔ یہاں نزل، نزل کے معنوں میں ہے۔

۲۔ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ: یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حق و حقیقت کو بیان کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے جسے قرآن کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ان حقائق کی طرف رسائی صرف قرآن کے ذریعے ہو سکتی ہے۔

۳۔ فَاعۡبُدِ اللّٰہَ: جب وہ حقائق جو نہایت اہمیت کے حامل ہیں آپ کی دست رسی میں آ گئے تو اس کے نتیجے میں اللہ کی بندگی کرنی چاہیے چونکہ یہ حقائق ’’رازبندگی‘‘ میں خلاصہ ہوتے ہیں۔

عبادت کی تعریف یہ ہے کہ کسی ذات کی تعظیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ خالق یا ربْ ہے۔ لہٰذا کسی کو خالق یا رب سمجھ کر بجا لانے والی تعظیم عبادت ہے۔ مطلق تعظیم عبادت نہیں ہے۔

۴۔ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ: دین کے معنی اس جگہ اطاعت ہو سکتے ہیں۔ پس اس جملے کے معنی یہ ہیں: اطاعت و فرماں برداری کو صرف اور خالصتاً اللہ کے لیے قرار دے کر عبادت کرو۔ خالص کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت بے شائبہ اور شفاف ہو۔ اس فرمان برداری کا مقصد صرف ذات الٰہی ہو اور اس سے عشق و محبت ہو اور اس میں غیر اللہ کا کوئی شائبہ نہ ہو جو ایک مشکل کام ہے۔ دینداری آسان ہے لیکن اسے بے شائبہ اور شفاف بنانا مشکل ہے۔

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

تَصْفِیَۃُ الْعَمَلِ اَشَدُّ مِنَ الْعَمَلِ۔۔۔۔ (الکافی: ۸،۲۲)

عمل کو صاف و شفاف بنانا خود عمل سے زیادہ مشکل ہے۔


آیت 2