آیت 7
 

اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنۡکُمۡ ۟ وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ ۚ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ مَّرۡجِعُکُمۡ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اگر تم کفر کرو تو یقینا اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کی بارگاہ کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یقینا وہ دلوں کا حال خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا: اگر تم اللہ کی بندگی چھوڑ کر ناشکری کے مرتکب ہو جاؤ تو اس کے منفی اثرات کے زد میں خود تم آجاؤ گے۔ اللہ تمہاری شکرگزاری سے بے نیاز ہے۔

۲۔ وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ: وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا۔ ایک سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کفران نعمت کو ناپسند کرتا ہے۔ اللہ کا ناپسند کرنا ہمارے لیے باعث ہلاکت ہے کیونکہ انسان کی کامیابی اللہ کی خوشنودی میں ہے۔

اس کی مثال استاد اور شاگرد کی ہے۔ اگر شاگرد محنت نہ کرے تو اس سے استاد کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا البتہ استاد کو یہ عمل ناپسند ہے۔ استاد اس سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ اس سے اس کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے اور اگر شاگرد محنت کرتا ہے تو استاد کو کوئی فائدہ نہیں ملتا البتہ استاد اس سے خوش ہو جائے گا۔ استاد کی توجہ اور پیار ملے گا جس سے اس کی زندگی سنور جائے گی۔

تصور آخرت کے مطابق انسان کی سعادت، کامیابی اور ارتقاء، رضائے رب کے ساتھ وابستہ ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ: مقام شکر پر فائز ہونے والا مقام رضائے رب پر فائز ہو جاتا ہے:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ ( ۹ توبۃ: ۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی ان سب سے بڑھ کر ہے۔

۳۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی: اس جملے کی تشریح سورہ انعام آیت ۱۶۴، بنی اسرائیل آیت ۱۵ میں، سورہ فاطر آیت ۱۸ میں ہو چکی ہے۔

اللہ کی خوشنودی: اس آیۂ شریفہ کا یہ جملہ قابل توجہ ہے: وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ ۚ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ۔۔۔۔ اللہ کفر کو پسند نہیں کرتا اور شکر کو پسند کرتا ہے۔

شیعہ امامیہ کا نظریہ ہے کہ کفر بذات خود یعنی عقلاً بُرا اور شکر بذات خود یعنی عقلاً اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی بھی کسی بری چیز کو پسند نہیں کرتا اور کسی اچھی چیز کو ناپسند نہیں کرتا۔ جب کہ ایک کلامی مکتب فکر کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ کفر کو پسند کرتا ہے اسی لیے کافر اسے اختیار کرتا ہے اور وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ میں نیک بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ اسی لیے ان سے کفر سرزد نہیں ہوتا۔ اس طرح وہ عبادہ کی تخصیص صرف نیک بندوں کے لیے کرتے ہیں۔ مخصص ان کا اپنا نظریہ ہے۔

بہرحال ان کا یہ نظریہ ہے کہ جب تک اللہ کسی چیز کو پسند نہیں کرتا وہ وقوع پذیر نہیں ہوتی اور کفر کو اللہ پسند کرتا ہے اس لیے کافر سے کفر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ نظریہ اس قدر واضح البطلان ہے کہ جواب کا محتاج نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ شکر ہے۔ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ۔۔۔۔


آیت 7