اضطراری حالت اور فطرت سلیم کی بیدای


وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیۡبًا اِلَیۡہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعۡمَۃً مِّنۡہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدۡعُوۡۤا اِلَیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ وَ جَعَلَ لِلّٰہِ اَنۡدَادًا لِّیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ قُلۡ تَمَتَّعۡ بِکُفۡرِکَ قَلِیۡلًا ٭ۖ اِنَّکَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ﴿۸﴾

۸۔ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جسے پہلے پکارتا تھا اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کے لیے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کی راہ سے (دوسروں کو) گمراہ کر دے، کہدیجئے: اپنے کفر سے تھوڑا سا لطف اندوز ہو جا، یقینا تو جہنمیوں میں سے ہے۔

8۔ اضطراری حالت میں اس کی فطرت بیدار ہو جاتی ہے، غیر فطری دباؤ ہٹ جاتا ہے اور انسان اپنی فطرت سلیمہ سے سرگوشی کرتا ہے تو وہاں اسے صرف اللہ ہی نظر آتا ہے، پھر اسی کو پکارتا ہے۔ جب اضطراری حالت ختم ہو جاتی ہے تو معاشرتی عادات و رسوم، خواہشات اور مفادات کی طرف سے غیر فطری دباؤ شروع ہو جاتا ہے۔