اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالۡحَقِّ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ ہم نے آپ پر یہ کتاب انسانوں کے لیے برحق نازل کی ہے لہٰذا جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی (روح) نیند میں (قبض کر لیتا ہے) پھر وہ جس کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے، فکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

42۔ نیند ایک قسم کی موت ہے۔ یعنی انسان کی مختلف قوتوں کا تعطل ہے نیز اس بات کی دلیل ہے کہ روح جسم سے ہٹ کر ایک الگ چیز ہے۔ روح عالم خواب میں جدا ہو کر عالم تجرد میں آتی ہے اور عالم تجرد میں آنے سے روح غیر زمانی ہو جاتی ہے۔ یعنی زمانے کی قید و بند سے آزاد ہو جاتی ہے پھر اس کے لیے ماضی و مستقبل برا بر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ آئندہ کی چیزوں کو حاضر پاتی ہے۔ اس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ انسان خواب میں آنے والے ان واقعات کو کیسے دیکھ لیتا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلۡ اَوَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یَمۡلِکُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اور وں کو شفیع بنا لیا ہے؟ کہدیجئے: خواہ وہ کسی چیز کا اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہوں (تب بھی شفیع بنیں گے)؟

قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ کہدیجئے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

44۔شفاعت کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ وہ جسے چاہے شفاعت کی اجازت دے۔ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ۔ (یونس: 3) یعنی اس کے اذن سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کر سکتا۔معلوم ہوا کہ اس کی اجازت سے شفاعت ہو سکے گی۔

وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اور وں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

45۔اس آیت میں مشرکین اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کی علامت بیان ہوئی ہے کہ صرف اللہ کے ذکر سے ان کے دل کڑھنے لگ جاتے ہیں اور جب غیر اللہ کا ذکر ہو تو ان کے چہروں پر بشاشت آ جاتی ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنی محافل میں ذکر خدا کو پسند نہیں کرتے۔

قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ عٰلِمَ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ اَنۡتَ تَحۡکُمُ بَیۡنَ عِبَادِکَ فِیۡ مَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کہدیجئے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے خالق، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔

46۔ یہ لوگ ذکر خدا کو پسند نہیں کرتے۔ قُلِ اے رسول! تو اس طرح ذکر خدا کر: تو کائنات کا خالق ہے۔ غیب و شہود کا جاننے والا تو ہی ہے۔ آخری اور اٹل فیصلہ سنانے والا بھی تو ہی ہے۔ اس ذات کے ذکر کو پسند نہ کرنے والے لوگ کل اٹل فیصلے کے دن اللہ کو کیسے منہ دکھائیں گے؟

وَ لَوۡ اَنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لَافۡتَدَوۡا بِہٖ مِنۡ سُوۡٓءِ الۡعَذَابِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ بَدَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَحۡتَسِبُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اور اگر ظالموں کے پاس وہ سب (دولت) موجود ہو جو زمین میں ہے اور اتنی مزید بھی ہو تو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اسے فدیہ میں دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا۔

47۔ وَ بَدَا لَہُمۡ : مشرکین چونکہ آخرت کو نہیں مانتے تھے، اس لیے عذاب آخرت کے بارے میں ان کا تصور نہایت سطحی تھا اور عذاب الٰہی کا سامنا کریں گے تو ایسی صورت سامنے آئے گی جو ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔

وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی اور جس بات کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انہیں گھیر لے گی۔

48۔ وہ دنیا میں ہادیان برحق کی طرف سے آخرت کے عذاب کی باتیں سنتے تو اس کا مزاح اڑاتے تھے، لیکن آج ان کے اپنے گناہ خود ظاہر ہو کر ان کے سامنے آئیں گے۔

فَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ۫ ثُمَّ اِذَا خَوَّلۡنٰہُ نِعۡمَۃً مِّنَّا ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ ؕ بَلۡ ہِیَ فِتۡنَۃٌ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اپنی طرف سے اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے: یہ تو مجھے صرف علم کی بنا پر ملی ہے، نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

49۔ وہ اس نعمت کو اپنی ذاتی مہارت کا نتیجہ تصور کرتا ہے یا وہ یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اہل اور مستحق ہے، حالانکہ یہ نعمت اس کے لیے ایک آزمائش ہے، کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کو مصائب میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور وہ کامیاب نکل آتے ہیں، جبکہ نافرمان بندوں کو دولت و نعمت دے کر آزماتا ہے اور یہ دولت اور نعمت ہی ان کے لیے باعث عذاب بن جاتی ہے۔

قَدۡ قَالَہَا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ ان سے پہلے (لوگ) بھی یہی کہا کرتے تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے ان کے کسی کام نہ آیا۔