مشرکین کا تصور آخرت


وَ لَوۡ اَنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لَافۡتَدَوۡا بِہٖ مِنۡ سُوۡٓءِ الۡعَذَابِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ بَدَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَحۡتَسِبُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اور اگر ظالموں کے پاس وہ سب (دولت) موجود ہو جو زمین میں ہے اور اتنی مزید بھی ہو تو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اسے فدیہ میں دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا۔

47۔ وَ بَدَا لَہُمۡ : مشرکین چونکہ آخرت کو نہیں مانتے تھے، اس لیے عذاب آخرت کے بارے میں ان کا تصور نہایت سطحی تھا اور عذاب الٰہی کا سامنا کریں گے تو ایسی صورت سامنے آئے گی جو ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔

وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی اور جس بات کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انہیں گھیر لے گی۔

48۔ وہ دنیا میں ہادیان برحق کی طرف سے آخرت کے عذاب کی باتیں سنتے تو اس کا مزاح اڑاتے تھے، لیکن آج ان کے اپنے گناہ خود ظاہر ہو کر ان کے سامنے آئیں گے۔

فَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ۫ ثُمَّ اِذَا خَوَّلۡنٰہُ نِعۡمَۃً مِّنَّا ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ ؕ بَلۡ ہِیَ فِتۡنَۃٌ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اپنی طرف سے اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے: یہ تو مجھے صرف علم کی بنا پر ملی ہے، نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

49۔ وہ اس نعمت کو اپنی ذاتی مہارت کا نتیجہ تصور کرتا ہے یا وہ یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اہل اور مستحق ہے، حالانکہ یہ نعمت اس کے لیے ایک آزمائش ہے، کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کو مصائب میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور وہ کامیاب نکل آتے ہیں، جبکہ نافرمان بندوں کو دولت و نعمت دے کر آزماتا ہے اور یہ دولت اور نعمت ہی ان کے لیے باعث عذاب بن جاتی ہے۔