آیت 46
 

قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ عٰلِمَ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ اَنۡتَ تَحۡکُمُ بَیۡنَ عِبَادِکَ فِیۡ مَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کہدیجئے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے خالق، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: یہ مشرکین ذکر خدا کو پسند نہ کریں تونہ کریں۔ قُلِ اے رسول! آپ اس طرح ذکر خدا کریں: تو ہی کائنات کا خالق، غیب و شہود کا جاننے والا ہے۔ آخری اور اٹل فیصلہ سنانے والا تو ہی ہے۔

اس طرح ذکر خدا میں اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف کا ذکر کیاجائے جن کا تعلق ہمارے وجود و بقا سے ہے۔ جس میں علم خدا اور حتمی اور اٹل فیصلے کا ذکر ہے۔ اس قسم کے ذکر سے انسان کے شعور اور وجدان پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ ان اوصاف کے ذکر سے اللہ کی معرفت اور معرفت سے محبت حاصل ہوتی ہے جیسے مؤمن کے دل میں اللہ کی محبت آ گئی، ایمان آ گیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ھَلِ الدِّیْنُ اِلَّا الْحُبُّ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۷۹)

کیا دین، محبت کے علاوہ کسی اور چیز کانام ہے؟

اہم نکات

۱۔ دینداری یہ ہے کہ اس فیصلے کا خیال رکھا جائے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے ہونے والا ہے۔


آیت 46