آیت 45
 

وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اور وں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ: شرک و کفر کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ صرف اللہ کے ذکر سے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں جب کہ ایمان کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿۲۸﴾ (۱۳ رعد:۲۸)

اور یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث روایت ہے:

عَلَامَۃُ حُبِّ اللہِ حُبُّ ذِکْرِہٖ وَ عَلَامَۃُ بُغْضِ اللہِ بُغْضُ ذِکْرِہٖ۔ (مستدرک الوسائل۵: ۲۸۶)

اللہ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ ذکر خدا پسند کرے اور اللہ سے عداوت کی علامت یہ ہے کہ ذکر خدا ناپسند کرے۔

۲۔ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ: جب غیر اللہ، اپنے خود ساختہ معبودوں کا ذکر آتا ہے تو ان کے چہروں پر بشاشت آ جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ ذکر خدا کو پسند کرنا ہی ایمان بخدا و آخرت کی علامت ہے۔

۲۔ ذکر خدا کا پسند نہ کرنا شرک کی علامت ہے۔


آیت 45