ثُمَّ اِنَّکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ تَخۡتَصِمُوۡنَ﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ پھر قیامت کے دن تم سب اپنے رب کے سامنے مقدمہ پیش کرو گے۔

31۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہر مظلوم اپنا مقدمہ پیش کرے گا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ قول منقول ہے: انا اول من یجثو بین یدی الرحمن للخصومۃ یوم القیامۃ ۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی 8: 25) سب سے پہلے میں اللہ کے حضور اپنا مقدمہ پیش کروں گا۔

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَ کَذَّبَ بِالصِّدۡقِ اِذۡ جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلا دیا؟ کیا کفار کے لیے جہنم میں ٹھکانا نہیں ہے؟

وَ الَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ اہل تقویٰ ہیں۔

33۔ قرطبی، آلوسی اور سیوطی نے اپنی تفاسیر نیز ابن مغازلی اور گنجی نے اپنی مناقب میں یہ روایت بیان کی ہے: الذی جاء بالصدق سے مراد پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور صدق بہ سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔

لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ذٰلِکَ جَزٰٓوٴُا الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۚۖ۳۴﴾

۳۴۔ ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں ان کے رب کے پاس ہے، نیکی کرنے والوں کی یہی جزا ہے۔

لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تاکہ اللہ ان کے بدترین اعمال کو مٹا دے اور جو بہترین اعمال انہوں نے انجام دیے ہیں انہیں ان کا اجر عطا کرے۔

اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ؕ وَ یُخَوِّفُوۡنَکَ بِالَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ ﴿ۚ۳۶﴾

۳۶۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ اور یہ لوگ آپ کو اس (اللہ)کے علاوہ دوسروں سے ڈراتے ہیں جب کہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے راہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے۔

36۔ مکہ کے کفار حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف دلاتے تھے کہ تم نے ہمارے مقدس معبودوں کو برا کہا ہے، سو ہمارے معبود تمہیں اس کی سزا ضرور دیں گے۔

وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّضِلٍّ ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِعَزِیۡزٍ ذِی انۡتِقَامٍ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور جس کی اللہ رہنمائی کرے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، کیا اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا نہیں ہے؟

37۔ اللہ کی عنایت اندھی بانٹ نہیں ہوتی، بلکہ جو شخص جس چیز کا اہل ہوتا ہے، اللہ اسے وہی عطا فرماتا ہے۔ اللہ کسی کو ہدایت سے تب نوازتا ہے جب وہ اس کا اہل ہو۔

پہلے بھی کئی بار ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ کسی کو گمراہ کرتا ہے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ابتداًء اللہ ایسا کرتا ہے، بلکہ اللہ کی طرف گمراہ کرنے کی نسبت اس بنا پر ہے کہ جو لوگ کفر پر ڈٹ جاتے ہیں ان کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ان سے اللہ ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ جسے اللہ ہدایت نہ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے ہدایت نہ دینے کا لازمی نتیجہ گمراہی ہے۔ اسی وجہ سے گمراہی کو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

چنانچہ اس کے بعد اللہ کو ذِی انۡتِقَامٍ کہنا دلیل ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت نہ دینے پر گمراہ ہو جانا اس کافر کے کفر پر ڈٹ جانے کا بدلہ، یعنی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلۡ اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلۡ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖۤ اَوۡ اَرَادَنِیۡ بِرَحۡمَۃٍ ہَلۡ ہُنَّ مُمۡسِکٰتُ رَحۡمَتِہٖ ؕ قُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ؕ عَلَیۡہِ یَتَوَکَّلُ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہدیجئے: اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کے بارے میں مجھے بتلاؤ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں؟ یا (اگر) اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہدیجئے: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسا رکھنے والے اسی پر بھروسا رکھتے ہیں۔

38۔ اگر تم مشرکین اللہ ہی کو خالق تسلیم کرتے ہو تو تمہاری ان دیویوں کے لیے کیا کام رہ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ سب اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہاری یہ دیویاں اس کائنات کی موجودات میں سے نہ کسی چیز کو روک سکتی ہیں، نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتی ہیں۔

ہَلۡ ہُنَّ : اشارہ بتوں کی طرف ہے۔ مشرکین میں سے عوام کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ بت سب کچھ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشرکین میں سے خواص کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ بت ان کے حقیقی معبودوں کی شبیہ ہیں اور ان بتوں کو صرف قبلہ کی حیثیت حاصل ہے، مگر عوام رفتہ رفتہ خود ان بتوں کو ہی معبود سمجھنے لگے۔ اسی لیے آیت میں اشارہ بھی بتوں کی طرف کیا گیا۔

قُلۡ یٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔کہدیجئے: اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ، میں بھی عمل کر رہا ہوں، پس عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا،

مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ یَحِلُّ عَلَیۡہِ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔کہ کس پر وہ عذاب آئے گا جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے۔