فَاَصَابَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا ؕ وَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡ ہٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیۡبُہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا ۙ وَ مَا ہُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ پس ان پر ان کے برے اعمال کے وبال پڑ گئے اور ان میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہے عنقریب ان پر بھی ان کے برے اعمال کے وبال پڑنے والے ہیں اور وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے ۔

اَوَ لَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے؟ ایمان لانے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

52۔ یہ بات درست ہے کہ رزق کا حصول اس کے علل و اسباب کے ساتھ مربوط ہے، لیکن اول تو اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، ان علل و اسباب کے پیچھے ارادﮤ الٰہی کارفرما ہوتا ہے۔ ثانیاً: ان علل و اسباب کو باہم مربوط کر کے ان کی کڑیوں کو صحیح طریقے سے ملایا جائے تو نتیجہ ملتا ہے۔ ورنہ ایک شخص بہت محنت کرتا ہے، لیکن نتیجہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ان مطلوبہ کڑیوں کو ملانے والا بھی ارادﮤ الٰہی ہے۔

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔

53۔ یہ محبت بھرا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ یہاں ارتکاب جرم کے بعد اللہ کی طرف پلٹنے (توبہ کرنے) کی بات ہے، وگرنہ جرم کے ارتکاب کے ساتھ عفو اور درگزر نامعقول بات ہے کہ قوم جرم کا ارتکاب جاری رکھے اور ساتھ معافی بھی جاری رہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ جرم کا ارتکاب ممکن ہونے کی صورت میں بندہ توبہ کرے تو تمام گناہ بخشے جائیں گے، خواہ شرک ہو یا غیر شرک اور اگر جرم کے ارتکاب کا امکان ختم ہو جائے، یعنی موت آ جائے تو اس صورت میں اللہ مشرک کو معاف نہیں کرتا۔ شرک کے علاوہ باقی گناہ پھر بھی معاف ہو سکتے ہیں: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔ (نساء :48) اللہ شرک کو نہیں بخشتا، اس سے کمتر (گناہوں) کو جس کے لیے چاہے بخش دیتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ قرآن میں اس آیت سے وسیع تر کوئی آیت نہیں ہے۔ ممکن ہے وسعت سے مراد یہ ہو کہ یہ آیت سب بندوں اور سب گناہوں کو شامل ہے۔

وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ اَسۡلِمُوۡا لَہٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے،پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔

54۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سابقہ آیت کا تعلق توبہ کرنے کی صورت سے ہے۔

وَ اتَّبِعُوۡۤا اَحۡسَنَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ بَغۡتَۃً وَّ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

۵۵۔ اور تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو بہترین (کتاب) نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر ناگہاں عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

55۔ بہترین یہ ہے کہ جس میں انسان کی نجات اور دارین کی سعادت ہے، جبکہ جن باتوں سے اجتناب کرنے کے لیے کہا گیا ہے، وہ انسان کے لیے بدترین ہیں۔

اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ یّٰحَسۡرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطۡتُّ فِیۡ جَنۡۢبِ اللّٰہِ وَ اِنۡ کُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۶﴾

۵۶۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے: افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔

اَوۡ تَقُوۡلَ لَوۡ اَنَّ اللّٰہَ ہَدٰىنِیۡ لَکُنۡتُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۵۷﴾

۵۷۔ یا وہ کہے: اگر اللہ میری ہدایت کرتا تو میں متقین میں سے ہو جاتا۔

اَوۡ تَقُوۡلَ حِیۡنَ تَرَی الۡعَذَابَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ کَرَّۃً فَاَکُوۡنَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ یا عذاب دیکھ کر یہ کہے: اگر مجھے واپس (دنیا میں) جانے کا موقع ملتا تو میں نیکی کرنے والوں میں سے ہو جاتا۔

58۔ عذاب کے مشاہدے کے بعد یہ خواہش ہر مجرم کو دامن گیر ہو گی کہ مجھے ایک بار موقع دیا جائے۔ لیکن اس سفر میں برگشت نہیں ہے۔ دنیا سے شکم مادر، اور صلب پدر کی طرف برگشت ممکن نہیں ہے۔

بَلٰی قَدۡ جَآءَتۡکَ اٰیٰتِیۡ فَکَذَّبۡتَ بِہَا وَ اسۡتَکۡبَرۡتَ وَ کُنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔(جواب ملے گا) کیوں نہیں! میری آیات تجھ تک پہنچیں مگر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔

وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیۡنَ کَذَبُوۡا عَلَی اللّٰہِ وُجُوۡہُہُمۡ مُّسۡوَدَّۃٌ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡمُتَکَبِّرِیۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور جنہوں نے اللہ کی نسبت جھوٹ بولا قیامت کے دن آپ ان کے چہرے سیاہ دیکھیں گے، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے؟