اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱﴾

۱۱۔ کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔

11۔ اور یہ بات آثار قدیمہ کی تحقیقات سے بھی ثابت ہو گئی ہے کہ زرہ سازی کی صنعت حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں رائج ہو گئی تھی۔

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔

12۔ سورئہ انبیاء آیت 18 میں بھی اس بات کا ذکر آ گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا مسخر تھی۔ بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کو ایک ماہ کی مسافت اور شام کو ایک ماہ کی مسافت ہوا کے ذریعہ طے کرتے تھے۔ کیا ان کی کرسی کو ہوا اٹھاتی تھی یا بحری جہاز کے ذریعہ یہ مسافت طے ہوتی تھی ؟ (کیونکہ اس زمانے میں جہاز رانی کا انحصار ہوا پر تھا) اس بارے میں کوئی واضح جواب اور دلیل ہمارے پاس نہیں۔ ممکن ہے کہ بحری جہاز کے لیے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تسخیر کیا ہو۔ ”تسخیر جن“ کے مسئلہ میں قرآن کی صراحت قابل تاویل نہیں ہے کہ اس سے مراد کوہستانی انسان لیا جائے بلکہ وہ جن ہی تھے جنہیں اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر فرمایا تھا۔

وَاَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ : ممکن ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبہ پگھلانے کی صنعت بڑے پیمانے پر رائج ہو گئی ہو، جسے چشمے سے تعبیر کیا گیا۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت کے لیے پگھلا ہوا تانبے کا چشمہ پھوٹ نکلا۔

یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

13۔ تمثال سے مراد جانداروں کا مجسمہ نہیں بلکہ روایات کے مطابق وہ درختوں کی تمثال بناتے تھے۔ شیخ انصاری مکاسب محرمہ میں فرماتے ہیں: جانداروں کا مجسمہ بنانا بلا اختلاف حرام ہے۔

وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ : دیگیں گڑی ہوئی اس لیے ہوتی ہوں گی کہ وہ اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ انہیں منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ممکن ہے ان میں افواج کے لیے کھانا پکتا ہو۔

فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی، پھر جب سلیمان زمین پر گرے تو جنوں پر بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

14۔اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جنات غیب کا علم نہیں رکھتے جیسا کہ مشرکین مکہ کا عقیدہ تھا: وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ ۔ (انعام: 100) اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا حالانکہ ان کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔

لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ ۬ؕ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔بتحقیق(اہل) سبا کے لیے ان کی آبادی میں ایک نشانی تھی، (یعنی) دو باغ دائیں اور بائیں تھے، اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، ایک پاکیزہ شہر (ہے) اور بڑا بخشنے والا رب۔

15۔سبا سے مراد وہ علاقہ ہے جسے آج ہم یمن کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ نہایت سر سبز تھا اور یہاں ہر طرف باغات نظر آتے تھے۔

فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔

16۔ابن عباس اور قدیم کتبات کے مطابق عَرِم سد (بند) کو کہتے ہیں۔ یہ بند تاریخ میں سد مآرب کے نام سے مشہور ہے۔ مآرب اس زمانے میں یمن کا دارالسلطنت تھا۔ لہٰذا سیل العرم اس سیلاب کو کہا گیا ہے جو کسی بند کے ٹوٹنے سے آیا تھا۔ چنانچہ اس سیلاب سے یمن کا سارا علاقہ تباہ ہو گیا۔ اس زمانے کے سبا والوں نے ایک عظیم سد بنایا تھا جس سے آب پاشی کا بہترین نظام وجود میں آیا اور سارا علاقہ سر سبز ہو گیا تھا۔ سیلاب کی تباہی کے بعد وہاں جھاڑیاں اگتی تھیں۔

ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِمَا کَفَرُوۡا ؕ وَ ہَلۡ نُجٰزِیۡۤ اِلَّا الۡکَفُوۡرَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ ان کی ناشکری کے سبب ہم نے انہیں یہ سزا دی اور کیا (ایسی) سزا ناشکروں کے علاوہ ہم کسی اور کو دیتے ہیں؟

17۔ کفران نعمت کی سزا کبھی دنیا میں سلب نعمت اور آخرت میں عذاب کی صورت میں ملتی ہے۔

وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ الۡقُرَی الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَّ قَدَّرۡنَا فِیۡہَا السَّیۡرَ ؕ سِیۡرُوۡا فِیۡہَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور ہم نے ان کے اور جن بستیوں کو ہم نے برکت سے نوازا تھا، کے درمیان چند کھلی بستیاں بسا دیں اور ان میں سفر کی منزلیں متعین کیں، ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفر کیا کرو۔

18۔ برکت والی بستیوں سے مراد بلاد شام ہی ہو سکتے ہیں۔ قرآن ان علاقوں کا ہمیشہ ذکر برکت والے کے نام سے کرتا ہے۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم نے یمن اور شام کے درمیان ایسی کھلی یا شاہراہ پر واقع بستیاں بسائیں اور سفر کی ایسی منزلیں مقرر کیں کہ پورا سفر امن کا سفر رہے۔

فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ﴿۱۹﴾

۱۹۔ پس انہوں نے کہا : ہمارے رب! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا چنانچہ ہم نے بھی انہیں افسانے بنا دیا اور انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، یقینا اس (واقعہ) میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

19۔ اس نا شکری پر مشتمل مطالبے کے نتیجے میں ان کو اللہ نے ایسا منتشر کیا کہ ان کی تباہی آنے والی نسلوں کے لیے ضرب المثل بن گئی۔ تفرقوا ایادی سبا ۔

ممکن ہے وہ نا شکری کی زبان حال سے کہ رہے ہوں، ورنہ سفر کی منزلوں کو لمبا کرنے کا مطالبہ ممکن ہے شعوری طور پر نہ کیا ہو۔ والعلم عند اللہ ۔

وَ لَقَدۡ صَدَّقَ عَلَیۡہِمۡ اِبۡلِیۡسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوۡہُ اِلَّا فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور بتحقیق ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان درست پایا اور انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے۔

20۔ شیطان نے کہا: میں اولاد آدم کو گمراہ کروں گا سوائے مخلص بندوں کے۔