آیت 12
 

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔

تشریح کلمات

رَوَاحُہَا:

رواح شام کے وقت کا سفر۔

اَسَلۡنَا:

( س ی ل ) سمیل ، بہ جانا

الۡقِطۡرِ:

( ق ط ر ) تانبہ

تفسیر آیات

۱۔ وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ سورۂ انبیاء آیت ۸۱ میں بھی اس بات کا ذکر آ گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا مسخر تھی۔ بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام صبح ایک ماہ کی مسافت اور شام ایک ماہ کی مسافت ہوا کے ذریعے طے کرتے تھے۔ کیا ان کی کرسی کو ہوا اٹھاتی یا بحری جہاز کے ذریعے یہ مسافت طے ہوتی تھی؟ کیونکہ اس زمانے میں جہاز رانی کا انحصار ہوا پر تھا۔ اس بارے میں کوئی واضح جواب اور دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔

۲۔ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ: ارباب لغت کے مطابق غدو فجر سے لے کر سورج کے نکلنے تک کو کہتے ہیں اور رواح دن کے آخری حصے کو کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک غدو صبح سے لے کر زوال تک اور رواح زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک کے لیے کہا جاتا ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت ۸۱ میں فرمایا:

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً۔۔۔۔

اور سلیمان کے لیے تیز ہوا کو (مسخر کیا)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوا کی رفتار بھی سلیمان علیہ السلام کے اختیار میں تھی۔ تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ جو سلیمان کے حکم کے مطابق چلتی تھی۔

۳۔ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ: ہم نے سلیمان کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد حکومت میں تانبے پگھلانے کی صنعت اس قدر بڑے پیمانے پر رائج ہو گئی تھی گویا تانبے کے چشمے بہ رہے ہوں۔ بعض روایات میں ہے صرف دو دن کے لیے یہ چشمہ پھوٹا تھا۔

۳۔ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ: اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان علیہ السلام کے آگے کام کرتے تھے۔ قرآن کی یہ صراحت قابل تاویل نہیں ہے کہ اس سے مراد کوہستانی انسان لیا جائے بلکہ وہ جن ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر فرمایا تھا۔ مزید تشریح الانبیاء آیت ۸۲ میں گزری ہے۔

۴۔ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ: جو ان جنوں میں سے ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہے ہم اسے بھڑکتی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے ہیں۔ بھڑکتی آگ کا عذاب اگرچہ قیامت کا عذاب ہو سکتا ہے تاہم دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے ان سرکش جنوں کو دنیا میں بھی عذاب دیا جاتا۔ فرمایا:

وَّ اٰخَرِیۡنَ مُقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ﴿۳۸﴾ (۳۸ ص: ۳۸)

اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے خاص بندوں کے ارادے نافذ ہوتے ہیں: وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ۔۔۔۔


آیت 12