وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔

12۔ سورئہ انبیاء آیت 18 میں بھی اس بات کا ذکر آ گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا مسخر تھی۔ بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کو ایک ماہ کی مسافت اور شام کو ایک ماہ کی مسافت ہوا کے ذریعہ طے کرتے تھے۔ کیا ان کی کرسی کو ہوا اٹھاتی تھی یا بحری جہاز کے ذریعہ یہ مسافت طے ہوتی تھی ؟ (کیونکہ اس زمانے میں جہاز رانی کا انحصار ہوا پر تھا) اس بارے میں کوئی واضح جواب اور دلیل ہمارے پاس نہیں۔ ممکن ہے کہ بحری جہاز کے لیے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تسخیر کیا ہو۔ ”تسخیر جن“ کے مسئلہ میں قرآن کی صراحت قابل تاویل نہیں ہے کہ اس سے مراد کوہستانی انسان لیا جائے بلکہ وہ جن ہی تھے جنہیں اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر فرمایا تھا۔

وَاَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ : ممکن ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبہ پگھلانے کی صنعت بڑے پیمانے پر رائج ہو گئی ہو، جسے چشمے سے تعبیر کیا گیا۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت کے لیے پگھلا ہوا تانبے کا چشمہ پھوٹ نکلا۔