آیت 18
 

وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ الۡقُرَی الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَّ قَدَّرۡنَا فِیۡہَا السَّیۡرَ ؕ سِیۡرُوۡا فِیۡہَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور ہم نے ان کے اور جن بستیوں کو ہم نے برکت سے نوازا تھا، کے درمیان چند کھلی بستیاں بسا دیں اور ان میں سفر کی منزلیں متعین کیں، ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفر کیا کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ الۡقُرَی الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا: ہم نے اہل یمن اور برکت والی بستیوں کے درمیان ایسی کھلی یا شاہراہ پر واقع بستیاں بسائیں اور سفر کی ایسی منزلیں مقرر کیں کہ پورا سفر امن کا سفر رہے۔

وہ کون سی بستیاں تھیں جنہیں اللہ نے برکت سے نوازا ہے؟ اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ بابرکت بستیوں سے مراد بلاد شام (فلسطین، اردن، سوریا) ہیں چونکہ قرآن کی متعدد آیات میں بلاد شام کو برکت والی بستیاں کہا ہے لیکن یہ بہت بعید ہے کہ یمن سے لے کر بلاد شام تک سرسبز بستیاں آباد ہوں، چونکہ یمن اور بلاد شام کے درمیان ایک وسیع اور طویل علاقہ، خشک اور بے آب و گیاہ ہے۔ یہ پورا علاقہ تاریخ کے کسی دور میں بھی سرسبز رہا ہو، ثابت نہیں ہے۔ یہ روایت نامعقول ہے جو کہتی ہے یمن اور شام کے درمیان چار ہزار سات سو سرسبز بستیاں تھیں۔ اگر بستیاں آباد تھیں تو اس بند کے ٹوٹنے کے بعد کی تباہی چھٹی صدی عیسوی سے پہلے موجود ہوناچاہیے تھی۔ ان تاریخوں میں ان آبادیوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

بعض کہتے ہیں بابرکت بستیوں سے مراد مکہ کی سرزمین ہے۔ یہ بھی بہت بعید ہے کہ یمن سے مکہ تک کا پورا علاقہ سرسبز ہو۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ بابرکت بستیوں سے مراد صنعاء یا مآرب ہے کہ یہ ددنوں یمن ہی کے علاقوں میں واقع ہیں۔ تباہی سے پہلے یہ علاقے نہایت بابرکت تھے۔ سرسبز باغات پر مشتمل تھے۔ چنانچہ اس علاقے کو بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ پاکیزہ شہر کہا ہے۔

پھر قابل مطالعہ بات یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا: یمن اور بابرکت بستیوں کے درمیان بلکہ اہل یمن اور بابرکت بستیوں کے درمیان بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ الۡقُرَی فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات زیادہ قرین واقع معلوم ہوتی ہے کہ بابرکت بستیوں سے یمن ہی کی بستیوں کا ذکر مراد ہے جیساکہ ابن جبیر نے لکھا ہے۔

۲۔ قُرًی ظَاہِرَۃً: نمایاں بستیاں جو مسافروں کے راستوں پر واقع تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ان بستیوں میں ٹھہرنے کے لیے راستے سے نکل کر دور جانا پڑتا ہو بلکہ یہ ساری بستیاں راستے پر واقع تھیں۔ شاید مسافروں کے لیے ایک سہولت کا ذکر ہے۔

بعض اہل تحقیق کے مطابق قُرًی ظَاہِرَۃً سے مراد شہروں سے دور واقع بستیاں ہیں جو بیابانوں میں واقع ہیں۔ چنانچہ صحرا کی بستیوں کو بادیہ بھی کہتے ہیں جو ظَاہِرَۃً کے معنوں میں ہے۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے: ہم نے اہل یمن اور بابرکت بستیوں کے درمیاں صحرائی بستیاں بنائیں۔

۳۔ وَّ قَدَّرۡنَا فِیۡہَا السَّیۡرَ: ان علاقوں میں سفر کی مسافت اور فاصلہ متعین تھا اور اس سے منزلیں بھی متعین ہوتی ہیں۔ سفر کے لیے یہ بھی بہت بڑی سہولت ہے کہ اگلی منزل کس جگہ ہو گی چونکہ آبادیاں متصل ہونے کی وجہ سے مسافر کو علم ہوتا تھا کہ اگلی منزل کون سی بستی ہو گی ورنہ خشک بیاباں میں منزل کا تعیین نہیں ہو سکتا۔

۴۔ سِیۡرُوۡا فِیۡہَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیۡنَ: ان بستیوں میں سفر کرو۔ یہ حکم بزبان حال ہے کہ اللہ نے سفر کے لیے اس طرح پرامن ماحول فراہم فرمایا ہے کہ اب دن کو سفر کرو یا رات کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ نہ پیاس بھوک کا، نہ درندوں کا، نہ راہزنوں کا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت پرُامن سفر ہے۔

۲۔ سفر میں منزل کا تعین ایک اہم سہولت ہے۔


آیت 18