آیت 19
 

فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ﴿۱۹﴾

۱۹۔ پس انہوں نے کہا : ہمارے رب! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا چنانچہ ہم نے بھی انہیں افسانے بنا دیا اور انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، یقینا اس (واقعہ) میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا: ان لوگوں نے کہا: ہمارے رب ہمارے سفر کی مسافتیں طویل کر دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ناشکری کا زباں حال ہے کہ وہ ان سفری سہولتوں کی وجہ سے طغیانی میں آئے تھے۔ اس کا واحد علاج مسافتیں دور کرنے میں تھا۔ اگرچہ بعض بزرگ مفسر فرماتے ہیں کہ ان کا یہ شعوری مطالبہ تھا جس طرح بنی اسرائیل نے من و سلویٰ کی جگہ تھوم اور پیاز مانگا تھا۔

۲۔ وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ: ان لوگوں نے کفران نعمت کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور ان نعمتوں سے اپنے آپ کو محروم کر لیا۔

۳۔ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ: پس ہم نے انہیں افسانہ بنا دیا کہ آنے والی نسلیں ان کی افسوسناک داستانیں بیان کیا کریں۔ یہاں تک کہ ان کی تباہی ایک ضرب المثل بن گئی۔ کہتے ہیں: تفرقوا ایادی سبا ۔ وہ قوم سبا کی نعمتوں کی طرح پراگندہ ہو گئے۔

۴۔ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ: اور انہیں مکمل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اپنے علاقے کی بربادی کے بعد یمن والے دیگر علاقوں میں منتشر ہو گئے اور یہ ترقی یافتہ قوم تتر بتر ہو کر رہ گئی۔

۵۔ تفہیم القرآن میں آیا ہے:

اسٹرابو لکھتا ہے: یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے اور ان کے مکانوں کی چھتوں، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی کے دانت، سونے، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے۔۔۔۔ آر ٹی میڈورس کہتا ہے: یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دارچینی، صندل اور دوسری خوشبودار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یونانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے علاقے کے قریب سواحل سے گزرتے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپٹیں پہنچتی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پر وہ فلک شگاف عمارت تعمیر کی جو قصر غمدان کے نام سے صدیوں تک مشہور رہی۔ عرب مورخین کا بیان ہے اس کی ۲۰ منزلیں تھیں اور ہر منزل ۳۶ فٹ بلند تھی۔ (ہمارے زمانے کے مطابق ستر منزلیں)۔ ( العہدۃ علی الراوی )

۵۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ: جو لوگ مقام صبر اور شکر پر فائز ہیں وہ ان واقعات سے درس لیتے ہیں۔ جو بے صبر، ناشکرے ہوتے ہیں وہ ان واقعات سے عبرت نہیں لیتے۔

اہم نکات

۱۔ نعمتوں کی فراوانی کی صورت میں ناشکری، عذاب الٰہی کے لیے دعوت ہے۔

۲۔ سب سے زیادہ متنعم قوم تباہی کے لیے ضرب المثل بن گئی۔ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ۔۔۔۔

۳۔ مقام صبر و شکر پر فائز لوگ اللہ کی نشانیوں سے درس لیتے ہیں۔


آیت 19