آیت 14
 

فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی، پھر جب سلیمان زمین پر گرے تو جنوں پر بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

تشریح کلمات

مِنۡسَاَتَہٗ:

عصا کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ: جب اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی موت کا فیصلہ کیا تو ممکن ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کو خفیہ رکھا گیا ہو اور ایسے لگتا ہے کہ جنات سے کام لینے کے لیے ان کے جسد کو ایک عصا پر تکیہ دے کر قائم رکھا گیا۔ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ جنات پر سلیمان علیہ السلام کی موت واضح ہو گئی، سے ایسا معلوم ہوتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت جنوں پر پوشیدہ تھی ورنہ یہ بات ممکن نہیں کہ ایک عظیم فرمانروا کا انتقال ہوتا ہے اور ان کے قریبی لوگوں، وزرا اور مشیروں سے پوشیدہ رہے جب کہ سیاق آیت سے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ؑکا جسد کسی ایسی جگہ پر تھا جو لوگوں کو نظر آئے تبھی تو گرنے پر جنات کو پتہ چلا۔

مجمع البیان میں ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے وصیت کی تھی:

لا تخبروا الجن بموتی حتی یفرغوا من بنائہ۔۔۔۔ (بحار ۱۴: ۱۴۲)

جنوں کو میری موت کی خبر نہ دو جب تک بیت المقدس کی تعمیر مکمل نہ ہو جائے۔

ایک روایت میں ہے کہ اپنے ایک قصر کی تکمیل تک۔

۲۔ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ: ان کی موت کی نشاندہی کسی اور نے نہیں کی۔ اس تعبیر سے بھی یہ عندیہ ملتا ہے کہ دیگر لوگوں سے بھی موت کو پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ نشاندہی صرف دیمک نے کی۔ وہ ان کا عصا کھا رہی تھی۔

۳۔ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ: جب حضرت سلیمان علیہ السلام گر پڑے تو جنات کو ان کی موت کا پتہ چلا۔ اس جملے کا ایک ترجمہ تو وہی جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ جنوں کا حال معلوم ہوا کہ وہ غیب نہیں جانتے۔ چونکہ مشرکین جنات کو اللہ کا شریک قرار دیتے اور انہیں اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے:

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ۔۔۔ (۶ انعام:۱۰۰)

اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایک عظیم فرمانروا کو ایک دیمک گرا دیتی ہے۔

۲۔ اس میں انسان کے لیے عبرت اور جنوں کا راز فاش ہے کہ وہ علم میں انسان سے بہتر نہیں ہیں۔


آیت 14