آیت 16
 

فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔

تشریح کلمات

الۡعَرِمِ:

( ع ر م ) عرمن سے ہے۔ بندکے معنی میں ہے۔

خَمۡطٍ:

( خ م ط ) بدمزہ، بے خار درخت۔

اَثۡلٍ:

( ا ث ل ) جھاؤ کے درخت۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ: ان لوگوں نے جب ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے گریز کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اس بند کا سیلاب روانہ کر دیا۔ العرم یہاں بند کے معنوں میں لیا جا سکے گا چونکہ اگر العرم شدت و قوت کے معنوں میں لیا جائے العرم ، سیل کا وصف ہو گا۔ اس صورت میں ترکیب کلام اس طرح ہوتی: فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سیلاً عرماً۔ ہم نے ان پر ایک شدید سیلاب روانہ کیا۔

کہتے ہیں یہ بند سنہ ۴۵۰ عیسوی میں ٹوٹ گیا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس سے سارے ملک کی آبادی اجڑ گئی۔

۲۔ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ: ان دو باغوں کے بدلے میں اللہ نے انہیں دو اور باغات دیے اور یہ جدید باغات بدمزہ پھل، کچھ جھاؤ اور تھوڑے سے بیرکے درختوں پر مشتمل تھے۔ ان دونوں کو باغات اس لیے کہا ہے چونکہ کلام باغات پر ہو رہا تھا۔ اس سیلاب نے ہر چیز کو بہا دیا۔ اب ان کی جگہ خودرو قسم کی مختلف جھاڑیاں اور درخت اُگنے شروع ہو گئے جو ان کے کام کے نہیں تھے ۔


آیت 16