آیت 13
 

یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ: حضرت سلیمان علیہ السلام جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام جنات سے جو کام لیتے تھے ان کا ذکر ہے:

الف: مِنۡ مَّحَارِیۡبَ: محراب کی جمع ہے۔ محراب ، صدر مجلس کو کہتے ہیں۔ اسی سے مسجد میں صدر مقام (امام کی جگہ) کو محراب کہتے ہیں۔ اگرچہ عرب، قصر کو بھی محراب کہتے ہیں تاہم قرآن نے یہ لفظ جائے عبادت کے لیے استعمال کیا ہے:

قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۳۹)

جب وہ حجرۂ عبادت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔

لہٰذا ہم ا س سے عبادت گاہیں مراد لیں گے۔

ب: وَ تَمَاثِیۡلَ: مجسمے یا تصویریں بھی بناتے تھے۔ ان تصویروں سے مراد غیر جاندار چیزوں کی تصویریں تھیں۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ اللہِ مَا ھِیَ تَمَاثِیلَ الرِّجَالَ وَ النِّسَآء وَ لٰکِنَّھَا الشَّجَرُ وَ شِبْھُہُ۔ (الکافی ۶: ۵۲۷)

قسم بخدا یہ مردوں اور عورتوں کی تصویریں نہیں تھیں بلکہ یہ درخت اور ان جیسے چیزوں کی تصاویر تھیں۔

شیخ انصاری مکاسب محرمہ میں فرماتے ہیں: جانداروں کا مجسمہ بنانا بلا اختلاف حرام ہے۔

ج۔ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ: حوض جیسے پیالے۔ بڑے بڑے حوض کی مانند پیالے بناتے تھے۔ لوگ اس کے گرد بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ قدیم زمانے اور بعض علاقوں میں آج بھی ایک ہی برتن سے کئی لوگ کھانا کھاتے ہیں جیسے آج کل ایک دسترخوان کے گرد بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ممکن ہے افواج ان پیالوں میں کھاتی ہوں۔

د۔ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ: اور زمین میں گڑھی ہوئی دیگیں بناتے تھے۔ یہ دیگیں اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ انہیں منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ممکن ہے ان میں افواج کے لیے کھانا پکتا ہو چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی وسیع سلطنت کے لیے طاقتور افواج بھی رکھتے تھے۔

فَلَنَاۡتِیَنَّہُمۡ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمۡ بِہَا۔۔۔۔ (۲۷ نمل: ۳۷)

ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر ضرور آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

۲۔ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا: اے آل داؤد شکر ادا کرو۔ جو سلطنت اور عزت اولاد داؤد کو عنایت ہوئی ہے اس کا حق ادا کرو۔ سلطنت عطا ہوئی ہے، عدل و انصاف قائم کر کے دولت عطا ہوئی ہے، ہر ایک کو اس کا حق ادا کر کے اثر و نفوذ عطا ہوا ہے تو احکام خدا نافذ و رائج کر کے شکر کرو۔

۳۔ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ: اللہ کے شکر کا حق ادا کرنا آسان کام ہوتا تو بندگان خدا میں شکر گزاروں کی کمی نہ ہوتی۔ سورۂ آل عمران آیت ۱۴۴ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپؐ کے دین پر قائم رہنا اور آپؐ کی تعلیمات میں تبدیلی نہ لانا مقام شکر ہے۔ فرمایا:

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾ (آل عمران: ۱۴۴)

اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

اہم نکات

۱۔ ملکی تعمیر و ترقی کے لیے ممکنہ قوتوں سے کام لینا چاہیے: یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ۔۔۔۔

۲۔ شکر ایک کردار کا نام ہے: اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا۔۔۔۔

۳۔ کردار کی شکل میں شکر گزار بندے تھوڑے ہوتے ہیں۔


آیت 13