وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَۃِ مِمَّنۡ ہُوَ مِنۡہَا فِیۡ شَکٍّ ؕ وَ رَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَفِیۡظٌ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ اور ابلیس کو ان پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی مگر ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخرت کا ماننے والا کون ہے اور ان میں سے کون اس بارے میں شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

21۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے بہت سے اسباب فراہم فرمائے ہیں، جیسے ضمیر، عقل، فرشتے اور انبیاء علیہم السلام، وہاں گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کو بھی نہیں روکا جیسے خواہشات، شیاطین جن اور شیاطین انس وغیرہ۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انسان کو کھڑا کیا گیا تاکہ ایمان اور شک والوں میں امتیاز ہو جائے۔

قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۚ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا لَہُمۡ فِیۡہِمَا مِنۡ شِرۡکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنۡہُمۡ مِّنۡ ظَہِیۡرٍ﴿۲۲﴾

۲۲۔ کہدیجئے: جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، وہ ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان دونوں میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے اس کا کوئی مددگار ہے۔

وَ لَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَہٗ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِہِمۡ قَالُوۡا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوا الۡحَقَّ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿۲۳﴾

۲۳۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے: حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔

23۔ مشرکین اپنے معبودوں کو اللہ کے ہاں شفاعت کنندہ سمجھتے تھے۔ مشرکین کے ہاں شفاعت سے مراد دنیاوی معاملات میں سفارش ہے۔ آخرت کے وہ منکر تھے۔ لہٰذا آیت کا موضوع دنیا میں شفاعت ہے۔ اس سلسلے میں فرمایا: دنیا میں بھی شفاعت کی کوئی ذات بذات خود حقدار نہیں ہے، جب تک مالک حقیقی کی طرف سے عنایت نہ ہو۔ یعنی فرشتے سفارش ضرور کر سکتے ہیں، لیکن ہر بات میں، ہر کسی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے حق میں شفاعت کر سکتے ہیں جس کے لیے اذن مل جائے۔ فرشتوں کو بذات خود شفاعت کا حق ہونا دور کی بات ہے، بلکہ یہ خود امر خدا کے انتظار میں پریشان حال ہوتے ہیں کہ کیا حکم ملنے والا ہے، حکم خدا آنے پر ان کے دلوں کی پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے سے اس حکم کی نوعیت پوچھتے ہیں۔

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِیَّاکُمۡ لَعَلٰی ہُدًی اَوۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ان سے پوچھیے:تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہدیجئے: اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔

24۔ واضح دلیل پیش کرنے کے بعد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان سے فرماتا ہے: تمہارا مؤقف اور ہمارا مؤقف باہم متضاد ہیں۔ یہ دونوں صحیح نہیں ہو سکتے اور دونوں باطل بھی نہیں ہو سکتے۔ یعنی رازق اللہ ہے یا تمہارے معبود، یہ دونوں نظریے باطل نہیں ہو سکتے۔ مشرکین کا نظریہ باطل ہونے پر دلیل موجود ہے کہ خود مشرکین اللہ کو خالق مانتے ہیں، پس انہیں اللہ کو رازق بھی ماننا پڑے گا۔ چونکہ رزق دینا بھی تخلیق ہے۔

قُلۡ لَّا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّاۤ اَجۡرَمۡنَا وَ لَا نُسۡـَٔلُ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ کہدیجئے:ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا۔

قُلۡ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفۡتَحُ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ ہُوَ الۡفَتَّاحُ الۡعَلِیۡمُ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہدیجئے: ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا، دانا ہے۔

قُلۡ اَرُوۡنِیَ الَّذِیۡنَ اَلۡحَقۡتُمۡ بِہٖ شُرَکَآءَ کَلَّا ؕ بَلۡ ہُوَ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۲۷﴾

۲۷۔ کہدیجئے: مجھے وہ تو دکھاؤ جنہیں تم نے شریک بنا کر اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز نہیں، بلکہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا صرف اللہ ہے۔

27۔ یعنی ان شریکوں کا حدود اربعہ تو بیان کرو کہ ان میں میری حکومت میں شریک ہونے کی صلاحیت کہاں سے آ گئی؟ ان بے جان بتوں میں یہ صلاحیت ہے یا اللہ کی تابع فرمان مخلوق فرشتوں میں؟

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

28۔ مکہ میں نازل ہونے والی یہ آیت مستشرقین کے اس اعتراض کا دندان شکن جواب ہے جو کہتے ہیں کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خیال شروع میں یہ تھا کہ وہ صرف اہل مکہ اور گرد و پیش کی چند بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ بعد میں غیر متوقع کامیابی دیکھ کر پہلے یہ دعویٰ شروع کیا کہ میں پورے جزیرۃ العرب کی طرف مبعوث ہوا ہوں اور بعد میں دعویٰ کیا کہ پورے عالم کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور یہ کہتے ہیں: اگر تم لوگ سچے ہو (تو بتاؤ قیامت کے) وعدے کا دن کب آنے والا ہے؟

قُلۡ لَّکُمۡ مِّیۡعَادُ یَوۡمٍ لَّا تَسۡتَاۡخِرُوۡنَ عَنۡہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿٪۳۰﴾ ۞ؒ

۳۰۔ کہدیجئے: تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔

29۔ 30 اللہ تعالیٰ کا کائناتی نظام تمہارے مطالبوں سے نہیں بدلتا۔ قیامت کے لیے اس نظام کے تحت ایک وقت مقرر ہے۔ اس سے ایک لمحہ کے لیے تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ مقررہ نظام میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مثلاً جس لمحے میں سورج نے طلوع کرنا ہے، اسی مقررہ وقت پر اربوں سال سے طلوع کر رہا ہے۔