وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور اس طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرمین میں سے بعض کو دشمن بنایا ہے اور ہدایت اور مدد دینے کے لیے آپ کا رب کافی ہے۔

31۔ ہماری سنت (روش) اس طرح نہیں ہے کہ ادھر انبیاء کی طرف سے حق کی دعوت آ گئی ادھر لوگ اس کی طرف جوق در جوق آ جاتے ہوں بلکہ اس دعوت کے سامنے دشمنوں کی بہت بڑی رکاوٹ حائل ہو گی اور مشکلات و صعوبتوں کے حوصلہ شکن سلسلوں کو پھلانگنا پڑے گا۔ اگر یہ کوئی آسان کام ہوتا تو سب یہ کام کرتے اور حق و باطل میں تمیز ختم ہو جاتی۔ البتہ استقامت اور ثابت قدمی دکھانے کے بعد آخر میں اللہ کی نصرت آ جاتی ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور کفار کہتے ہیں: اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا ؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

32۔ قرآن کو دفعتاً نہیں تدریجاً نازل کرنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ اس کے ذریعے اللہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل کو ثبات دیتا رہا۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل کی کمزوری سے کوئی عدم ثبات کا خطرہ نہ تھا، بلکہ جس جاہلی معاشرے کی تربیت کرنا تھی اس کے لیے وقت درکار تھا۔ دفعتاً کتاب پڑھانے سے یہ مسئلہ حل نہ ہوتا۔ اس عظیم انقلاب کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے فطرت سے ہم آہنگ تدریجی قدم اٹھانا ضروری تھا۔

وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا ﴿ؕ۳۳﴾

۳۳۔ اور یہ لوگ جب بھی آپ کے پاس کوئی مثال لے کر آئیں تو ہم جواب میں آپ کو حق کی بات اور بہترین وضاحت سے نوازتے ہیں۔

33۔ مَثَلٍ : دلیل و حجت کے طور پر ایسی مثالیں اور نظیریں پیش کرتے ہیں جن سے آپ کی نبوت کو مخدوش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ان مثالوں کو ان کے لیے حجت اور دلیل بننے نہیں دیتے، اس کی ایسی احسن تفسیر بیان کرتے ہیں، جس سے ان کا مدعی باطل ہو جاتا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ یُحۡشَرُوۡنَ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ اِلٰی جَہَنَّمَ ۙ اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے، ان کا ٹھکانا بہت برا ہے اور وہ راہ حق سے بہت ہی دور ہو گئے ہیں۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنَا مَعَہٗۤ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ وَزِیۡرًا ﴿ۚۖ۳۵﴾

۳۵۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔

فَقُلۡنَا اذۡہَبَاۤ اِلَی الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ فَدَمَّرۡنٰہُمۡ تَدۡمِیۡرًا ﴿ؕ۳۶﴾

۳۶۔ پھر ہم نے کہا: تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے، چنانچہ ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ۔

35۔36 آیت کا رخ کلام یہ ہے کہ ہم نے جس رسول کو تمہاری طرف بھیجا ہے وہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دے کر بھیجا ہے اور ہارون علیہ السلام کو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے وزیر بنایا ہے۔ تمہاری طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو تباہ کر دیا۔ ہم تم کو بھی تباہ کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد کی آیات میں قوم نوح کے غرق ہونے اور عاد و ثمود کی تباہی کا ذکر اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہے کہ گزشتہ انبیاء کی تاریخ میں جو کچھ ہوا ہے، وہ تمہارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغۡرَقۡنٰہُمۡ وَ جَعَلۡنٰہُمۡ لِلنَّاسِ اٰیَۃً ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿ۚۖ۳۷﴾

۳۷۔ اور جب قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشان (عبرت) بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وَّ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَ اَصۡحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوۡنًۢا بَیۡنَ ذٰلِکَ کَثِیۡرًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور یہی (حشر) عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کا بھی ہوا ہے اور ان کے درمیان بہت سی امتوں کا بھی۔

38۔ نہج البلاغۃ میں آیا ہے: اَیْنَ اَصْحَابُ مَدَائِنِ الرَّسِّ الَّذِینَ قَتَلُوا النَّبِیِّنَ ۔ رس کے شہروں کے باشندے کہاں ہیں، جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا۔

اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے یہاں کئی شہر آباد تھے۔ تفسیر صافی میں قمی سے نقل کیا ہے: رس آذربائیجان کے ایک علاقے کی نہر کا نام ہے۔ محمد عبدہ کے مطابق یہ وہی نہر ہے جسے آج کل نہر ارس کہتے ہیں۔

وَ کُلًّا ضَرَبۡنَا لَہُ الۡاَمۡثَالَ ۫ وَ کُلًّا تَبَّرۡنَا تَتۡبِیۡرًا﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے مثالوں سے سمجھایا اور (آخر میں) سب کو بالکل ہی تباہ کر دیا۔

وَ لَقَدۡ اَتَوۡا عَلَی الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡۤ اُمۡطِرَتۡ مَطَرَ السَّوۡءِ ؕ اَفَلَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَرَوۡنَہَا ۚ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَرۡجُوۡنَ نُشُوۡرًا﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور بتحقیق یہ لوگ اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی تو کیا انہوں نے اس کا حال نہ دیکھا ہو گا؟ بلکہ (اس کے باوجود) یہ دوبارہ اٹھائے جانے کی توقع ہی نہیں رکھتے۔

40۔ اس بستی سے مراد قوم لوط کی بستی ہے اور بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے۔ حجاز والے شام جاتے ہوئے قوم لوط کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے تھے۔