وَ اِذَا رَاَوۡکَ اِنۡ یَّتَّخِذُوۡنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ؕ اَہٰذَا الَّذِیۡ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوۡلًا﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق ہی اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟

41۔ ایک طرف یہ (نعوذباللہ) رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کو حقیر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو دعوت شروع کی ہے اس کا مقابلہ صبر آزما ہے۔

اِنۡ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنۡ اٰلِہَتِنَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ صَبَرۡنَا عَلَیۡہَا ؕ وَ سَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ حِیۡنَ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ مَنۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ اگر ہم اپنے معبودوں پر ثابت قدم نہ رہتے تو اس(شخص) نے تو ہمیں ان سے گمراہ ہی کر دیا ہوتا اور جب یہ لوگ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ (صحیح راستے سے) گمراہ کون ہے؟

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ مجھے بتاؤ جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس شخص کے ضامن بن سکتے ہیں؟

43۔ یعنی حق پر نفسانی خواہش کو مقدم رکھنے والا درحقیقت اپنی خواہشات کا بندہ ہے اور خواہشات کو اپنا معبود بنانا اور نفس پرستی جس قدر خطرناک ہے اس کا اندازہ اس آیت کے آخری جملے سے ہوتا ہے: اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ۔ کیا آپ ایسے شخص کا ذمہ لے سکتے ہیں ؟

اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ یا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ (نہیں) یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔

44۔ چونکہ حیوانات کی غرض تخلیق انسان کے لیے ان کا مسخر ہونا ہے اور یہ غرض حیوانات سے انجام پاتی ہے، جبکہ سرکش انسان اپنی غرض تخلیق کے منافی عمل کرتا ہے، اس لیے انسان جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیۡفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَیۡہِ دَلِیۡلًا ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کا رب سائے کو کس طرح پھیلاتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو سائے (کے وجود) پر دلیل بنا دیا۔

45۔ سورج سائے کے وجود پر دلیل اس لیے ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کی مختلف حالتوں سے مربوط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تخلیق میں جامعیت کی طرف اشارہ ہے کہ اس نظام میں جہاں دھوپ کا اہم کردار ہے، بلکہ دھوپ ہی سے زندگی ہے، وہاں بعض اوقات اس حیات آفرین دھوپ سے بچنا بھی پڑتا ہے۔ اس کے لیے سایہ کی پناہ فراہم فرمائی۔ سایہ کی فراہمی کے لیے اجسام کو سایہ دار بنایا، ورنہ اجسام شفاف ہوتے تو سایہ وجود میں نہ آتا۔

ثُمَّ قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا قَبۡضًا یَّسِیۡرًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ پھر ہم تھوڑا تھوڑا کر کے اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِبَاسًا وَّ النَّوۡمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّہَارَ نُشُوۡرًا﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو سکون اور دن کو مشقت کے لیے بنایا۔

47۔ دن رات کی گردش میں یہ حکمت ہے کہ رات کو انسان نیند میں آرام کر کے چارج ہو جاتا ہے اس طرح دن کو اپنی دنیا و آخرت کے لیے بہتر فعالیت کر سکتا ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا ﴿ۙ۴۸﴾

۴۸۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی برسایا ہے۔

48۔ پانی زمین کے میل کچیل اور بہت سی مضر صحت چیزوں کو صاف و پاک کر دیتا ہے۔ فقہی اعتبار سے خالص پانی نجس چیزوں کو پاک کرتا ہے۔

لِّنُحۡیِۦَ بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا وَّ نُسۡقِیَہٗ مِمَّا خَلَقۡنَاۤ اَنۡعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ کَثِیۡرًا﴿۴۹﴾

۴۹۔ تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ دیس کو زندگی بخشیں اور اس سے اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپاؤں اور انسانوں کو سیراب کریں۔

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنٰہُ بَیۡنَہُمۡ لِیَذَّکَّرُوۡا ۫ۖ فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور بتحقیق ہم نے اس (پانی) کو مختلف طریقوں سے ان کے درمیان پھرایا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگ انکار کے علاوہ کوئی بات قبول نہیں کرتے۔

50۔ صَرَّفۡنٰہُ : ہم نے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا ہے، یعنی ہم نے اس پانی کو ان (لوگوں) کے درمیان گھمایا پھرایا تاکہ ہر ایک کو اپنی ضرورت کا پانی میسر آ جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ پانی کو بخا، بادل اور ہوا کے ذریعے اور نہروں اور دریاؤں کو جاری کر کے مختلف علاقوں میں پھراتا ہے۔