آیت 33
 

وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا ﴿ؕ۳۳﴾

۳۳۔ اور یہ لوگ جب بھی آپ کے پاس کوئی مثال لے کر آئیں تو ہم جواب میں آپ کو حق کی بات اور بہترین وضاحت سے نوازتے ہیں۔

تفسیر آیات

بِمَثَلٍ: کا مطلب یہ ہے کہ منکرین دلیل و حجت کے طور پر ایسی مثالیں اور نظیریں پیش کرتے ہیں جن سے آپؐ کی نبوت کو مخدوش کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان مثالوں کو ان کے لیے حجت اور دلیل بننے نہیں دیتے اور ان کی ان باطل مثالوں اور دلیلوں کے مقابلے میں وہ دلیل پیش کرتے ہیں جو حق پر مبنی ہے اور ایسی بہتر تفسیر پیش کرتے ہیں جس سے باطل کے چہرے سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔’’تفسیر‘‘ کشف المغطی پردہ اٹھانے کو کہتے ہیں۔

اِنْزَال اور تَنْزِیْل میں فرق: اگرچہ یہ بات مشہور ہے کہ انزل دفعتہ نازل کرنے اور تنزیل تدریجاً نازل کرنے کے معنوں میں ہے مگر قرآنی استعمالات میں اس معنی کا التزام نہیں ہے۔ چند مثالیں:

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ۔۔ (۶ انعام: ۳۷)

اور وہ کہتے ہیں: اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ نازل کیوں نہیں ہوا؟

اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَۃً ۔۔۔ (۲۶ شعراء: ۴)

اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں۔

وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ فَلَمَسُوۡہُ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۷)

اور (اے رسول) اگرہم کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب (بھی) آپ پر نازل کرتے۔۔۔۔

ان آیات میں اٰیَۃً اور کِتٰبًا ایک معجزے، ایک کتاب کے لیے نُزَّلَ استعمال ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایک چیز دفعتہ آ سکتی ہے۔

اس موضوع پر سب سے واضح آیت یہی زیر بحث آیت ہے جس میں دفعتہ نازل کرنے کے لیے نُزَّلَ استعمال ہوا ہے۔

لہٰذا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے باب افعال اور باب تفعیل کی دیگر خاصیتوں کی طرف توجہ کر کے آیات میں پوشیدہ نکات کا استنباط کرنا چاہیے بشرطیکہ سیاق آیت اجازت دے۔

اہم نکات

۱۔ خود قرآن میں قلب رسولؐ کی تقویت کا اہتمام کیا گیا ہے۔

۲۔ تعلیم و ارتقاء تدریجاً ممکن ہے۔ یہی طریقۂ قدرت ہے۔


آیت 33