آیت 40
 

وَ لَقَدۡ اَتَوۡا عَلَی الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡۤ اُمۡطِرَتۡ مَطَرَ السَّوۡءِ ؕ اَفَلَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَرَوۡنَہَا ۚ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَرۡجُوۡنَ نُشُوۡرًا﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور بتحقیق یہ لوگ اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی تو کیا انہوں نے اس کا حال نہ دیکھا ہو گا؟ بلکہ (اس کے باوجود) یہ دوبارہ اٹھائے جانے کی توقع ہی نہیں رکھتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَتَوۡا: اس بستی سے مراد قوم لوط کی بستی ہو سکتی ہے اور بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے۔ ہوسکتا ہے طاقتور لاوہ پھٹنے سے ان پر پتھر کی بارش ہوئی ہو۔ حجاز والے شام جاتے ہوئے قوم لوط کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے تھے:

وَ اِنَّکُمۡ لَتَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مُّصۡبِحِیۡنَ﴿﴾ (۳۷ صافات ۱۳۷)

اور تم دن کو بھی ان (بستیوں) سے گزرتے رہتے ہو۔

۲۔ اَفَلَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَرَوۡنَہَا: کیا وہ اس قوم کے عبرت ناک انجام کا مشاہدہ نہیں کرتے رہے۔

۳۔ لۡ کَانُوۡا لَا یَرۡجُوۡنَ: وہ اس عبرت ناک انجام کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں لیکن وہ اس سے عبرت نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ دوبارہ زندہ ہونے کے قائل نہیں ہیں لہٰذا عبرت کا موضوع منتفی ہے۔

اہم نکات

۱۔ عقیدہ معاد کی کمزوری سے عبرت ناک دروس بھی بے اثر ہوتے ہیں۔


آیت 40