وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے؟ یہ لوگ اپنے خیال میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور بڑی حد تک سرکش ہو گئے ہیں۔

21۔ کافروں کا اللہ پر اعتراض ہے کہ اس نے جو رسول بھیجے وہ درست نہ تھے، فرشتوں کو بھیجنا چاہیے تھا اور ایمان بالغیب کی دعوت بھی درست نہ تھی، اسے خود ظاہر ہو کر سامنے آنا چاہیے تاکہ سب لوگ اسے دیکھ لیں اور ایمان لے آئیں۔

جواب میں فرمایا: ان لوگوں نے اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھ رکھا ہے کہ اللہ پر اعتراض کرنے لگ گئے اور سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ اللہ کا عمل انہیں پسند نہیں۔

یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا﴿۲۲﴾

۲۲۔ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کے لیے مسرت کا دن نہ ہو گا اور وہ (فرشتے ) کہیں گے:(تمہارے لیے مسرت) حرام ممنوع ہے۔

22۔ اگر یَقُوۡلُوۡنَ کو مُجۡرِمِیۡنَ کے ساتھ مربوط کیا جائے تو اس آیت کا ترجمہ یہ بنے گا: وہ (مُجۡرِمِیۡنَ) کہیں گے: (ہمارے لیے) مسرت حرام ممنوع ہے۔

وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾

۲۳۔ پھر ہم ان کے کیے ہوئے عمل کی طرف توجہ کریں گے اور ان کے کیے ہوئے عمل کو اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔

23۔ مشرک ایک مجرم ہے اس میں کوئی حُسۡنُ نہیں ہے۔ عمل کرنے والا مجرم ہے تو اس کے عمل میں کوئی حسن نہیں آئے گا۔ لہٰذا جس شخص میں ایمان نہیں اس میں کوئی حسن نہیں۔ نتیجتاً اس کے عمل میں بھی کوئی حسن نہ ہو گا۔

ہَبَآءً : ان زروں کو کہتے ہیں جو روشندانوں سے آنے والی سورج کی روشنی میں غبار کی طرح نظر آتے ہیں۔

اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ یَوۡمَئِذٍ خَیۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّ اَحۡسَنُ مَقِیۡلًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ اہل جنت اس دن بہترین ٹھکانے اور بہترین سکون کی جگہ میں ہوں گے۔

وَ یَوۡمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالۡغَمَامِ وَ نُزِّلَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ تَنۡزِیۡلًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور اس دن آسمان ایک بادل کے ذریعے پھٹ جائے گا اور فرشتے لگاتار نازل کیے جائیں گے۔

25۔ آسمان پھٹ جائے گا۔ یعنی آسمان کے راستے کھل جائیں گے اور بادل کے سائبانوں میں فرشتے زمین پر اتریں گے۔

اَلۡمُلۡکُ یَوۡمَئِذِۣ الۡحَقُّ لِلرَّحۡمٰنِ ؕ وَ کَانَ یَوۡمًا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ عَسِیۡرًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ اس دن سچی بادشاہی صرف خدائے رحمن کی ہو گی اور کفار کے لیے وہ بہت مشکل دن ہو گا۔

وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا: کاش میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔

یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ ہائے تباہی! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

لَقَدۡ اَضَلَّنِیۡ عَنِ الذِّکۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِیۡ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اس نے مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا جب کہ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی اور انسان کے لیے شیطان بڑا ہی دغا باز ہے۔

29۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور تاریخ اسلام میں بھی ہوا ہے کہ اچھے خاصے دینداروں کو مفاد پرستوں نے گمراہ کیا اور اپنے نا جائز عمل کی توجیہ کر کے اپنے آپ کو اور دوسروں کو جھوٹی تسلی دیتے رہے۔

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور رسول کہیں گے: اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔

30۔ قیامت کے روز جہاں گمراہ لوگ اپنے کیے پر نادم ہوں گے، وہاں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اللہ کی بارگاہ میں ان مجرموں کے جرم سے متعلق جو بنیادی مسئلہ اٹھائیں گے، وہ ہے قرآن کو ترک کرنا اور جو دستور حیات آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انسانوں کے لیے عنایت فرمایا تھا اسے ان لوگوں نے قابل اعتنا نہ سمجھا اور اس کی جگہ انسان کے خود ساختہ دستور حیات پر عمل کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کو قابل فخر سمجھا۔