بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ یُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَ اِیَّاکُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ رَبِّکُمۡ ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِیۡ ٭ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ٭ۖ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ وَ مَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو حامی نہ بناؤ، تم ان کی طرف محبت کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں اور وہ رسول کو اور تمہیں اس جرم میں جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو، (ایسا نہ کرو) اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نکلے ہو، تم چھپ چھپا کر ان کی طرف محبت کا پیغام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو ان سب کو میں بہتر جانتا ہوں تم میں سے جو بھی ایسا کرے وہ راہ راست سے بہک گیا۔

1۔ یہ آیات حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں نازل ہوئیں، جس نے مشرکین مکہ کو ایک خفیہ خط لکھا جس میں ان کو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عزم سے آگاہ کیا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خط ایک عورت کے ہمراہ بھیجا تھا۔ اللہ نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آگاہ کیا۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام اور زبیر کو اس کے پیچھے روانہ کیا۔ چنانچہ وہ خط پکڑا گیا۔

جب حاطب سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ تو اس نے کہا : میرے قریبی عزیز مکہ میں ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ قریش پر ایک احسان کروں، جس کی وجہ سے میرے اقربا محفوظ رہیں۔ حاطب مہاجرین اور اہل بدر میں سے تھا۔ اس کے باوجود اس سے یہ حرکت سرزد ہوئی اور قرآن نے اس کو گمراہ قرار دیا۔

امامیہ کا مؤقف یہی ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا مومن رہتا ہے۔ قرآن نے بھی اس عمل کے ارتکاب کرنے والے کو کافر یا مرتد نہیں کہا بلکہ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ گمراہ کہا ہے، یعنی یہ عمل راہ راست سے ہٹ کر انجام دیا ہے۔

تعجب کا مقام ہے کہ کچھ حضرات آیت سے تقیہ جائز نہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ (دریابادی) حالانکہ یہ مسئلہ نہایت واضح ہے کہ یہ تقیہ کا مقام نہیں ہے۔ تقیہ میں خطرے سے بچنے کے لیے اصل راز چھپایا جاتا ہے: یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ ۔ یہاں لشکر اسلام کو خطرے میں جھونکنے کے لیے راز فاش کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی حاطب اپنے ایمان کو چھپا کر اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچا لیتا تو یہ تقیہ تھا۔ لیکن وہ ایک اہم راز دشمن تک پہنچا کر بہت سی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔ جسے وحی کے ذریعے بچا لیا گیا۔

اِنۡ یَّثۡقَفُوۡکُمۡ یَکُوۡنُوۡا لَکُمۡ اَعۡدَآءً وَّ یَبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ وَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ اگر وہ تم پر قابو پا لیں تو وہ تمہارے دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر اختیار کرو۔

لَنۡ تَنۡفَعَکُمۡ اَرۡحَامُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ ۚۛ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳﴾

۳۔ تمہاری قرابتیں اور تمہاری اولاد تمہیں ہرگز کوئی فائدہ نہیں دیں گی، قیامت کے دن اللہ تمہارے درمیان (ان رشتوں کو توڑ کر) جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

3۔ قصۂ حاطب کی طرف اشارہ ہے کہ جن رشتہ داروں کی خاطر تم نے یہ قدم اٹھایا ہے، وہ قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہ آئیں گے۔ وہاں سارے رشتے ٹوٹ جائیں گے۔

قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ وَ مَاۤ اَمۡلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ﴿۴﴾

۴۔ تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب ان سب نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو ان سب سے بیزار ہیں، ہم نے تمہارے نظریات کا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گی جب تک کہ تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، البتہ ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) سے کہا تھا: میں آپ کے لیے مغفرت ضرور چاہوں گا اور مجھے آپ کے لیے اللہ سے کوئی اختیار نہیں ہے، (ان کی دعا یہ تھی) ہمارے رب! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

4۔ اپنی مشرک قوم سے تعلق توڑنے کے لیے تمہارے پاس ابراہیم میں اچھا نمونہ موجود ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے مشرک باپ (چچا) کے لیے دعائے مغفرت کی ہے جو ان کے ساتھ مخصوص وعدہ کی وجہ سے کی تھی۔ جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے بیزاری اختیار کی تھی۔

اہل تحقیق کے مطابق مشرک کے لیے استغفار جائز ہے۔ فَلَمَّا تَبَیَّنَ بات واضح ہونے سے مراد موت ہے جب مشرک اپنے شرک پر مر جاتا ہے اس کے بعد استغفار جائز نہیں۔ لہذا اس آیت کا مطلب اس طرح بنتا ہے : ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں تمہارے لیے نمونہ ہے کہ وہ اپنی مشرک قوم سے بیزاری اختیار کرتے تھے۔

رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ اغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۵﴾

۵۔ ہمارے رب! تو ہمیں کفار کی آزمائش میں نہ ڈال اور ہمیں بخش دے ہمارے رب! یقینا تو ہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

5۔ یعنی ہمیں کفار کی آزمائش کا ذریعہ نہ بنا کہ ہماری کمزوری کو دیکھ کر کفار اسلام کی حقانیت پر شک کریں۔ واضح رہے کہ دین کی حقانیت پر قائم ہونے والی دلیل و حجت کے پوری ہونے اور نہ ہونے کے ساتھ آزمائش بھی قوی اور کمزور ہو جاتی ہے۔ یعنی حجت پوری ہونے سے آزمائش قوی اور حجت پوری نہ ہونے سے آزمائش کمزور ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب حجت اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو آزمائش بھی اپنی آخری منزل پر پہنچ جاتی ہے۔ پھر آزمائش ختم اور عذاب کی نوبت آتی ہے۔ چنانچہ گزشتہ امتوں پر جب حجت انتہا کو پہنچی تو عذاب نازل ہوا۔ جیسا کہ ناقۂ صالح علیہ السلام کے معجزے کے بعد قوم ثمود اور قوم عاد کی ہلاکت ہے۔ چنانچہ ہم نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کی طرف سے معجزوں کا مطالبہ قبول نہ کرنا ایک رحمت ہے۔ کیونکہ تجویز شدہ اور مطلوبہ معجزہ دکھانے کے بعد پھر مہلت نہیں ملتی، جیسا کہ ناقۂ صالح کے معجزہ کے بعد قوم صالح کو مہلت نہیں ملی۔ اس آیت میں یہ دعا ہے: پروردگار ہمیں کفار کی آزمائش میں اضافہ کا سبب نہ بنا، بلکہ ان پر حجت میں اضافے کا سبب بنا۔ چنانچہ آج کے مسلمان کفار کی آزمائش اور ان کو مہلت ملنے کا سبب بن رہے ہیں۔

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡہِمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ٪﴿۶﴾

۶۔ بتحقیق انہی لوگوں میں تمہارے لیے ایک اچھا نمونہ ہے ان کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتے ہیں اور جو کوئی روگردانی کرے تو اللہ یقینا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّجۡعَلَ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَ الَّذِیۡنَ عَادَیۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّوَدَّۃً ؕ وَ اللّٰہُ قَدِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۷﴾

۷۔ ممکن ہے کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم دشمنی کر رہے ہو محبت پیدا کر دے اور اللہ بہت قدرت والا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

7۔ جب تمہارے آج کے دشمن رشتہ دار مسلمان ہو جائیں گے تو یہ دشمنی محبت میں بدل جائے گی۔

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

8۔ کافروں سے دوستی کرنا اس صورت میں ممنوع ہے جب مسلمان ان کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں۔ اگر یہ کافر ذمّی ہوں یا ان کے ساتھ معاہدہ ہو، یعنی حالت جنگ میں نہ ہوں تو ایسے کافروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کافروں کے ساتھ ہر قسم کی ولایت کا رشتہ قائم کرنا ممنوع ہے۔ نہ ولایت حمایت و نصرت، نہ ولایت وراثت، نہ ولایت اطاعت، نہ ولایت محبت۔

البتہ اگر ان کافروں کے ساتھ حالت جنگ نہیں ہے تو ان سے ولایت محبت دوستی اس حد تک جائز ہے کہ ان پر احسان کیا جائے اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔

اگر کفار سے حالت جنگ میں ہوں تو کسی قسم کی ولایت قائم کرنا ممنوع ہے۔ حتیٰ خود اہل ایمان کے درمیان بھی ولایت نصرت و حمایت قائم نہیں ہوتی جب تک وہ مومن ہجرت نہ کرے ملاحظہ ہو (انفال: 72)۔

اِنَّمَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اللہ تو یقینا تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ ؕ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ ؕ وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ؕ وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ وَ سۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ وَ لۡیَسۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ حُکۡمُ اللّٰہِ ؕ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اے ایمان والو! جب ہجرت کرنے والی مومنہ عورتیں تمہارے پاس آ جائیں تو تم ان کا امتحان کر لیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایماندار ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کفار) ان کے لیے حلال ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے وہ ان (کافر شوہروں) کو ادا کر دو اور جب تم ان عورتوں کے مہر انہیں ادا کر دو تو ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہے مانگ لو اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے وہ (کفار) بھی (تم سے) مانگ لیں، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

10۔ صلح حدیبیہ کے بعد کی بات ہے کہ مکے کی بعض خواتین ہجرت کرکے مدینہ آئی تھیں اور ان کے شوہر ان کو واپس لے جانے کے لیے مدینہ آئے تھے اور معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ان مسلمان عورتوں کو واپس نہ کیا جائے، کیونکہ معاہدے کا اطلاق ان عورتوں پر نہیں ہوتا، معاہدے میں صرف مردوں کا ذکر ہے۔

ان مسلمان عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ادا کیا ہے وہ واپس کریں اور اس کے علاوہ بھی ان عورتوں کو مہر ادا کریں۔ مرد مسلمان ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ کافر عورت کو اپنے نکاح میں رکھے۔ اس صورت میں ان کافر عورتوں کو جو مہر ادا کیا گیا ہے وہ کفار کی طرف سے واپس مل جانا چاہیے۔

وَ اِنۡ فَاتَکُمۡ شَیۡءٌ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ اِلَی الۡکُفَّارِ فَعَاقَبۡتُمۡ فَاٰتُوا الَّذِیۡنَ ذَہَبَتۡ اَزۡوَاجُہُمۡ مِّثۡلَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اگر تمہاری کوئی بیوی تم سے نکل کر کفار کی طرف چلی جائے پھر تمہاری (غنیمت لینے کی) باری آ جائے تو جن لوگوں کی بیویاں چلی گئیں ہیں (اس غنیمت میں سے) انہیں اتنا مال ادا کرو جتنا ان لوگوں نے خرچ کیا ہے اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

11۔ فَعَاقَبۡتُمۡ اگر کافر سے وہ مہر واپس نہ ملے تو تمہاری نوبت آنے پر تم بھی ان کو ادا نہ کرو، بلکہ مسلمان شوہروں کو ادا کرو، جن کی بیویاں دار الکفر میں کفر کی حالت میں رہ گئی ہیں۔ اگر یہ نوبت نہ آئے تو مال غنیمت سے ادائیگی ہو گی۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اے نبی! جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آپ کے پاس آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، اللہ یقینا بخشنے والا، مہربان ہے۔

12۔ جاہلیت میں عورتیں جن کی مرتکب ہوتی تھیں، اس بیعت میں ان تمام جرائم کے ترک کرنے کا ذکر ہے۔ بہتان سے مراد زنا سے ہونے والی اولاد کو اپنے شوہر کی اولاد قرار دینا ہے۔ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ۔۔۔۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے، سے مراد ایسی اولاد کو شوہر کے سر تھوپنا ہے جو اس کی نہیں ہے۔ روایت ہے: زمان جاہلیت میں بعض عورتیں پھینکے ہوئے بچوں کو اٹھا لاتیں اور اپنے شوہروں سے کہتیں کہ یہ تمہارا بچہ ہے۔

فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ : ہر نیک کام کو معروف کہتے ہیں۔ نیکی کو معروف اس لیے کہتے ہیں کہ عقل اس کی خوبی کا اعتراف کرتی ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عورتوں سے بیعت اس طرح لی کہ ایک پیالے کو پانی سے بھر دیا، پھر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس میں ہاتھ داخل فرمایا، پھر نکال لیا۔ اس کے بعد عورتوں سے کہا تم اس پیالے میں اپنے ہاتھ داخل کرو۔ (المیزان)

صحیح بخاری میں آیا ہے: رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی نامحرم عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ قَدۡ یَئِسُوۡا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الۡکُفَّارُ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡقُبُوۡرِ﴿٪۱۳﴾ ۞ؒ

۱۳۔ اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جس پر اللہ غضبناک ہوا ہے جو آخرت سے اس طرح مایوس ہیں جیسے کفار اہل قبور سے ناامید ہیں۔