آیت 3
 

لَنۡ تَنۡفَعَکُمۡ اَرۡحَامُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ ۚۛ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳﴾

۳۔ تمہاری قرابتیں اور تمہاری اولاد تمہیں ہرگز کوئی فائدہ نہیں دیں گی، قیامت کے دن اللہ تمہارے درمیان (ان رشتوں کو توڑ کر) جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اے مشرکین کو پیغام مودت بھیجنے والو! جن رشتہ داروں اور اولاد کو تحفظ دینے کے لیے تم نے یہ حرکت کی ہے کل قیامت کے دن جب تمہیں اس جرم کا جواب دینا پڑے گا اس وقت تمہارے یہ رشتہ دار یہ اولاد جن کے لیے تم نے اس جرم کا ارتکاب کیا کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔

اس آیت کی صراحت سے وہ روایت صحیح ثابت نہیں ہوتی کہ اہل بدر کو بخش دیا گیا ہے اور انہیں کھلی اجازت مل گئی ہوئی ہے افعلوا ما شئتم ’’جو چاہو کرو۔‘‘ اس صحابی کے دل نے جو چاہا کیا ہے۔ اس پر قیامت کے دن باز پرس ہو گی اور رشتہ دار اور اولاد اس صحابی کو نہیں بچا سکیں گے۔

۲۔ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ: قیامت کے دن ہر ایک سے جدا جدا حساب لیا جائے گا:

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ۔۔ (۲۳ مومنون: ۱۰۱)

پھر جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی۔۔۔۔

جب صور پھونکا جائے گا تو نسب کارآمد نہیں رہے گا۔ اولاد کی اپنی قسمت کا فیصلہ ہو گا اور تمہاری اپنی قسمت کا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر اولاد کے جنت جانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو وہ تمہیں ساتھ نہیں لے جا سکے گی اگر تم صالح نہ ہوئے۔


آیت 3