آیت 8
 

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت میں مسلمانوں کا پرامن کافروں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے، اس کا حکم بیان ہوا ہے۔

۱۔ لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ: ان سے مراد وہ مشرکین ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ امن ہے۔

۲۔ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا: سے مراد ان کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا ہے۔ جیسے صلہ رحمی، حق ہمسایہ کی رعایت، مہمان نوازی، معاہدوں کی پاسداری، وفائے وعدہ، امانت کی ادائیگی، خرید و فروخت میں خیانت نہ کرنا۔

مسلمانوں کے کافروں کے ساتھ برتاؤ میں درج ذیل اصول سامنے رکھنے چاہئیں:

i۔ صرف عقیدے کی بنیاد پر اسلام کسی شخص کے ساتھ دشمنی کرنے کا حکم نہیں دیتا، نہ ہی کافر کو بھی صرف عقیدے کی بنیاد پر دشمنی کرنے کا حق دیتا ہے اور صرف عقیدے کی بنیاد پر دشمنی کرنا، اسلام جرم سمجھتا ہے۔ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۵۹)

ii۔ اسلام انسانی پہلو کا احترام کرتا ہے۔ ایک شخص اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور زیادتی کا مجرم نہیں ہے تو وہ کافر ہونے کے باوجود انسان اور مخلوق خدا ہے۔ خود اللہ دنیا میں کافر سے اپنی نعمتیں سلب نہیں فرماتا اور کافر والدین کے لیے قرآن یہ حکم دیتا ہے:

وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۱۵)

البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا۔

مالک اشتر کے نام عہد نامے میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپؑ اس انسانی برتاؤ کا حکم اس طرح فرماتے ہیں:

اِمَّا اَخٌ لَکَ فِی الدِّینِ وَ اِمَّا نَظِیرٌ لَکَ فِی الْخَلْقِ۔۔۔۔

ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق خدا۔

iii۔ اسلام کسی عقیدے کو قبول یا رد کرنے میں جبر کو جائز نہیں سمجھتا۔ اسلام جہاں دین کو قبول کرنے میں جبر و اکراہ کو جائز نہیں سمجھتا وہاں اسے رد کرنے کے لیے بھی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم نے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۵۶) کے ذیل میں لکھا ہے کہ اسلام دین فطرت اور عقل و منطق کا دین ہے۔ اس فطری دعوت کے مخاطب فکر و اددراک اور عقل ہے۔ اسلامی دعوت جسم کو نہیں، عقل و ادراک کو جھنجھورتی ہے۔ اسلام طاقت کی نہیں بلکہ منطق کی زبان سے بات کرتا ہے۔ اس کا مدعی ایمان ہے اور ایمان امر قلبی ہے۔ دل طاقت کی زبان نہیں سمجھتا۔

iv۔ عدل و انصاف اسلام کے نزدیک ایک انسانی مسئلہ ہے جو ہر فرد کو ملنا چاہیے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اسلامی عدالت میں فریقین برابر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک فریق مسلم دوسرا فریق کافر ہو۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان دنوں (۲۰۱۰ء) ایسے کلمہ گو لوگوں سے دوچار ہیں جو صرف اور صرف عقیدے کی بنیاد پر بے جرم پرامن کافروں کو نہیں، کلمہ گو مسلمانوں کو مسجدوں میں حالت نماز میں، بازاروں میں قتل کر رہے ہیں۔ گزشتہ چندین سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ ان اہم اسلامی اور انسانی قدروں کو پامال کر کے اسے اسلامی جہاد کا نام دیتے ہیں۔ ’’برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘


آیت 8