کافروں سے روابط کا مسئلہ


لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

8۔ کافروں سے دوستی کرنا اس صورت میں ممنوع ہے جب مسلمان ان کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں۔ اگر یہ کافر ذمّی ہوں یا ان کے ساتھ معاہدہ ہو، یعنی حالت جنگ میں نہ ہوں تو ایسے کافروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کافروں کے ساتھ ہر قسم کی ولایت کا رشتہ قائم کرنا ممنوع ہے۔ نہ ولایت حمایت و نصرت، نہ ولایت وراثت، نہ ولایت اطاعت، نہ ولایت محبت۔

البتہ اگر ان کافروں کے ساتھ حالت جنگ نہیں ہے تو ان سے ولایت محبت دوستی اس حد تک جائز ہے کہ ان پر احسان کیا جائے اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔

اگر کفار سے حالت جنگ میں ہوں تو کسی قسم کی ولایت قائم کرنا ممنوع ہے۔ حتیٰ خود اہل ایمان کے درمیان بھی ولایت نصرت و حمایت قائم نہیں ہوتی جب تک وہ مومن ہجرت نہ کرے ملاحظہ ہو (انفال: 72)۔