آیت 12
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اے نبی! جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آپ کے پاس آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، اللہ یقینا بخشنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر آیات

مفسرین لکھتے ہیں: یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں سے بیعت لینے سے فارغ ہوئے۔ جب آپ صفا پر تشریف فرما تھے اس وقت مکہ کی عورتیں آپ سے بیعت کے لیے آئیں۔ ان میں ابو سفیان کی زوجہ ہند بھی تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درج ذیل شرائط پر عورتوں سے بیعت لی:

i۔ یہ کہ آئندہ کسی قسم کے شرک کا ارتکاب نہ کریں۔

ii۔ چوری نہ کریں۔ اس میں سرفہرست اپنے شوہروں کا مال ہے جو عورتیں ان کی اجازت کے بغیر خرچ کیا کرتی ہیں۔ چنانچہ اس بیعت کے وقت ابو سفیان کی زوجہ ہندہ کا سوال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب شاہد ہے۔ ہندہ پوچھتی ہے: یا رسول اللہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے۔ میں نے اس کے مال سے کچھ اس کی مرضی کے بغیر خرچ کیا ہے۔ کیا یہ مجھ پر حلال ہے؟ آپ نے فرمایا۔ صرف معروف اور معمول کی حد تک حلال ہے۔

iii۔ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ: زنا کا ارتکاب نہ کریں چونکہ جاہلیت میں یہ برائی عام تھی۔

iv۔ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ: اولاد کو قتل نہ کریں۔ زندہ درگور یا اسقاط حمل کی صورت میں۔

وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ: بہتان کی صورت یہ ہے کہ ناجائز اولاد اپنے شوہروں کی اولاد قرار دیں۔ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ سے مراد یہی ہے کہ ایسی اولاد اپنے شوہروں کے سر تھوپ دینا جو ان کی نہیں ہے۔

vi۔ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ: نیک کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں۔ معروف کی قید احترازی نہیں چونکہ معروف وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمائیں۔ معروف کا مصدر سنت رسول ہے۔ سنت رسول سے ہٹ کر معروف و منکر میں تمیز کرنے کا ان عورتوں کے پاس کیا میزان تھا کہ وہ دیکھ لیں رسول کا حکم معروف ہے یا نہیں۔ پھر کہا جائے لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں تو یہ طے ہے: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ (۵۳ نجم: ۳) اور رسول کے جانشین اولی الامر کے بارے میں بھی طے ہے کہ وہ رسول کا حکم سناتے ہیں۔ رسول اور اولی الامر کی اطاعت مطلق ان کی عصمت کے حوالے سے ہے کہ وہ از خود کوئی حکم نہیں دیتے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم بیان کرتے ہیں اور امام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم بیان کرنے میں نہ غلطی کرتے ہیں نہ کوتاہی۔


آیت 12