آیت 10
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ ؕ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ ؕ وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ؕ وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ وَ سۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ وَ لۡیَسۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ حُکۡمُ اللّٰہِ ؕ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اے ایمان والو! جب ہجرت کرنے والی مومنہ عورتیں تمہارے پاس آ جائیں تو تم ان کا امتحان کر لیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایماندار ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کفار) ان کے لیے حلال ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے وہ ان (کافر شوہروں) کو ادا کر دو اور جب تم ان عورتوں کے مہر انہیں ادا کر دو تو ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہے مانگ لو اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے وہ (کفار) بھی (تم سے) مانگ لیں، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

شان نزول: ابن عباس راوی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیبیہ میں مشرکین مکہ کے ساتھ مصالحت فرمائی، اس میں یہ بات تھی کہ جو اصحاب رسول میں سے مکہ بھاگ جائے وہ واپس نہیں کریں گے لیکن جب کوئی اہل مکہ کا بندہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف آئے گا اسے واپس کرنا ہو گا۔ صلح نامہ لکھنے اور اس پر مہر لگنے کے بعد سبیعہ بنت حرث اسلمی مسلمان ہو کر رسولؐ کے پاس آ گئیں تو اس کا شوہر اس کے تعاقب میں آ گیا ور کہا: اے محمد! میری بیوی مجھے واپس کرو چونکہ آپ نے معاہدے میں یہ بات مان لی ہے کہ ہمارا بندہ آپ واپس کریں گے اور ابھی عہد نامے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ: اس آیت کی رو سے مصالحت کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ کوئی مرد آتا تو واپس کر دیتے اور عورت آنے کی صورت میں واپس نہ کرتے۔

۲۔ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ: ابن عباس کہتے ہیں امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنے شوہر سے نفرت کرنے یا کسی سرزمین کی رغبت کی وجہ سے نہیں، صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نکلی ہے۔

یہ حکم چونکہ صرف اسی مورد کے ساتھ مختص ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو بھی طریقہ امتحان وضع کیا ہو اس سے ایمان کے اصل محرک کا علم ہو سکتا تھا۔ لہٰذا یہ احتمال درست نہیں ہے کہ اس امتحان سے بھی ہو سکتا ہے واقع کا علم نہ ہو۔

۳۔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ: اللہ کے علم کے علاوہ اس زمانے کے مسلمانوں کو بھی علم ہونا مطلوب ہے۔

۴۔ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ: اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وضع کردہ طریقۂ امتحان سے علم ہو جاتا تھا۔

۵۔ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ: ان عورتوں کے ایمان کا علم ہونے کے بعد انہیں کفار کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا اور صلح نامے کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا چونکہ معاہدے میں لفظ رجل ہے۔

۶۔ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ: اب مشرک اور مومن کا جوڑ نہیں ہے۔ نہ مسلم عورتیں مشرک مردوں کے لیے حلال ہیں، نہ مشرک مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔

۷۔ وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا: جو مومن عورتیں اپنے مشرک شوہروں سے جدا ہوئی ہیں ان کا مہر مشرک شوہروں کو واپس کر دو۔ یہ حکم مشرکین کے ساتھ مصالحت کی وجہ سے ہے۔ صلح کی صورت میں مشرکین کے بھی جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں۔

۸۔ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ: اب مسلمان مردوں کے لیے جائز ہے ان عورتوں سے عقد کر لیں جو اپنے مشرک شوہروں سے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے جدا ہوئی ہوں بشرطیکہ ان کو مہر ادا کریں۔ یعنی ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ادا کیا ہے وہ واپس کریں اور اس کے علاوہ بھی ان عورتوں کو مہر ادا کریں۔

۹۔ وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ: اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔ یعنی مسلمان کے لیے کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگر شوہر مسلمان ہو جائے تو مشرک عورت جدا ہو جائے گی۔

اس آیت میں نکاح کو عصمت کہا ہے۔ عصمت تحفظ کو کہتے ہیں اور نکاح عورت کے لیے تحفظ ہے۔

آیت کا اطلاق تمام کافر عورتوں کو شامل کرتا ہے۔ وہ کافر عورت حربی ہو یا ذمی، بت پرست ہو یا کوئی اور قسم کی کافر ہو۔ آیت کا نزول بت پرست عورتوں کے بارے میں ہونے کی وجہ سے آیت کا اطلاق متاثر نہیں ہوتا: العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب۔ لفظ کا عام ہونا معتبر ہے سبب نزول کا خاص ہونا معتبر نہیں ہے۔

۱۰۔ وَ سۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ: اگر عورت مشرک یا مرتد ہو جائے تو وہ مسلم شوہر سے جدا ہو جائے گی۔ اس صورت میں اگر وہ دار الکفر چلی جاتی ہے اور وہ اسے واپس نہیں کیا جاتا تو مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جو مہر مسلم شوہر نے اس عورت کو ادا کیا ہے اس کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ جیسا کہ ان مشرکوں کو معاہدے کے تحت یہ حق حاصل ہے جو مہر انہوں نے ادا کیا ہے اس کی واپسی کا تم سے مطالبہ کریں۔

اہم نکات

۱۔ مشرک کافروں کو ان کی ازواج کا مہر ادا کرنا اسلام کے نظام عدل کی اہم علامت ہے۔

۲۔ پرامن کافر کا مال بھی محفوظ ہے۔


آیت 10