آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الممتحنۃ

سورۃ الممتحنۃ سب کے نزدیک مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ بعض نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت کے آٹھویں سال نازل ہوئی۔

مضمون: حاطب بن ابی بَلْتَعَہ کا ذکر ہے جس نے قریش کے سرداروں کو اطلاع فراہم کرنے کی کوشش کی کہ ان پر حملہ ہونے والا ہے۔ یہ صحابی بدری ہونے کے باوجود اپنے اہل و عیال کو بچانے کے لیے مسلمانوں کو فتح مکہ کے لیے خونی تصادم سے دوچار کر رہے تھے۔

ایک اور اہم مسئلہ کا بھی اس سورۃ میں ذکر ہے کہ مکہ میں موجود کافر عورتیں، مدینہ کے مسلم مردوں پر حرام ہیں۔ اسی طرح مسلم عورتیں، کافر شوہروں کے لیے حرام اور آزاد ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ یُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَ اِیَّاکُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ رَبِّکُمۡ ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِیۡ ٭ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ٭ۖ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ وَ مَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو حامی نہ بناؤ، تم ان کی طرف محبت کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں اور وہ رسول کو اور تمہیں اس جرم میں جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو، (ایسا نہ کرو) اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نکلے ہو، تم چھپ چھپا کر ان کی طرف محبت کا پیغام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو ان سب کو میں بہتر جانتا ہوں تم میں سے جو بھی ایسا کرے وہ راہ راست سے بہک گیا۔

شان نزول: اس سورہ کی ابتدائی چند آیات حاطب بن ابی بَلْتَعَہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ واقعہ اس طرح پیش آیا :

جب کفار مکہ نے حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع فرمائی تو ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے ایک عورت کے ہاتھ قریش کے رئیسوں کے نام ایک خط بھیجا۔ یہ عورت مدینہ سے روانہ ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آگاہ فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو زبیر اور مقداد کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجا کہ اس عورت سے حاطب کا خط برآمد کریں اور حکم دیا کہ اگر عورت نے خط نہ دیا تو اسے قتل کر دینا۔ چنانچہ جب انہوں عورت کو پکڑ لیا اور اس سے خط مانگا تو اس عورت نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ اس کی تلاشی لی گئی مگر خط نہیں ملا۔ انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

واللّٰہ ما کذبنا ولا کذبنا

قسم بخدا نہ ہم نے کبھی جھوٹ بولا ہے نہ ہی ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔

یہ کہ کر اپنی تلوار نیام سے نکالی اور فرمایا: خط ہمارے حوالہ کر دو ورنہ تیری گردن ماری جائے گی۔ اس پر عورت نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر خط آپ کے حوالہ کیا۔ اس خط میں سرداران قریش کے نام لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم پر چڑھائی کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حاطب کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ میں کافر ہو گیا ہوں نہ مرتد بلکہ میرے قریبی رشتہ دار مکہ میں ہیں۔ میں قبیلہ قریش کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے یہ خط اس خیال سے لکھا ہے کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان ہو جس کی وجہ سے وہ میرے بچوں کو کچھ نہ کہیں۔ حضرت عمر نے اس موقع پر کہا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اللہ اسے معاف فرمائے گا۔

حاطب مہاجر بدری ہے اس کے باوجود اس سے یہ جرم سرزد ہوا اور قرآن نے اسے گمراہ کہا ہے۔

اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحاح میں اور تمام مفسرین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ کچھ حضرات نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے اس آیت سے تقیہ جائز نہ ہونے پر استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر دربادی

حالانکہ نہایت واضح ہے کہ یہ تقیہ کا مقام نہیں ہے۔ تقیہ میں خطرے سے بچنے کے لیے اصل راز چھپایا جاتا ہے۔ جیسا کہ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۲۸) سے ظاہر ہے۔ یہاں لشکر اسلام کو خطرے میں جھونکنے کے لیے راز فاش کیا جا رہا ہے اور یہی حاطب اپنا ایمان چھپا کر اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچا لیتا تو یہ تقیہ تھا لیکن وہ ایک اہم راز دشمن تک پہنچا کر بہت سی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔ جسے وحی کے ذریعہ بچا لیا گیا۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ: اللہ اور مومنوں کے دشمن مشرکین کو اپنا ولی، حامی، ناصر مت بناؤ۔ اللہ کے دشمنوں کی حمایت نہ لو۔

۲۔ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ: انہیں محبت، ہمدردی کا پیغام بھیجتے ہو کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بدری صحابی نے مشرکین سے محبت کی ہے۔ خواہ یہ محبت ان کے مشرک ہونے کی وجہ سے نہ ہو، اگر ایسا ہوتا تو کافر ہو جاتا بلکہ یہ محبت اپنے مفاد کی وجہ سے تھی۔

۳۔ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا: یہ محبت تم ان حالات میں کر رہے ہو کہ اولاً وہ اس حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے یعنی دین اسلام اور اس کی تعلیمات کے منکر ہیں۔ ثانیاً ان مشرکین نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمہیں اس جرم میں مکہ سے نکالا ہے کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو۔

۴۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا: اگر تم اپنے گھر بار چھوڑ کر راہ خدا میں اور رضائے خدا کے لیے نکلے ہو تو میرے دشمن کی حمایت نہ لو۔ چونکہ یہ خط لکھنے والا مہاجر تھا اس لیے خَرَجۡتُمۡ سے مراد ہجرت ہو سکتی ہے۔

۵۔ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ: تم ان مشرکین کو خفیہ پیغام محبت بھیجتے ہو جو تمہاری ہجرت کے منافی ہے اور مرضات رب کے بھی خلاف قدم ہے۔

۶۔ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں تمہاری پوشیدہ اور ظاہری سب باتیں جانتا ہوں۔ تم نے یہ بات کس سے چھپائی؟ صحابی کا اس پر پختہ ایمان ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ سے کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی تو یہ قدم ہرگز نہ اُٹھاتا۔

۷۔ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ: تم مسلمانوں میں سے جس نے بھی یہ قدم اٹھایا وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ اس تصریح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کوئی شخص خواہ وہ صحابی اور بدری ہی کیوں نہ ہوں مسلمان ہوتے ہوئے بھی گمراہ ہو سکتا ہے۔

ابن عباس اس جملے کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں:

انہ عدل عن قصد الایمان فی اعتقادہ۔

اس شخص نے اپنے عقیدے میں ایمان سے عدول کیا ہے۔

اگر یہ روایت صحیح ہے کہ بدریوں سے افعلوا ما شئتم ’’جو چاہو کرو‘‘ کہا گیا ہے تو سرزنش کیوں؟ اس جرم کی سنگینی یہ ہے کہ اس نے حالت جنگ میں دشمن کے حق میں جاسوسی کی۔ اول تو دشمن کے حق میں مطلق جاسوسی بڑا جرم ہے جس کی سزا قتل ہے، پھر یہ جاسوسی حالت جنگ میں ہو تو جرم اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔


آیت 1