وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔

21۔ اول تو زن و مرد کی تخلیق میں توازن روز اول سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ نہ عورتوں کے لیے مردوں کی قلت پیش آتی ہے اور نہ مردوں کے لیے عورتوں کی قلت۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش ودیعت فرمائی کہ ایک کو دوسرے سے سکون مل جائے۔ سوم یہ کہ ان دونوں میں حاکم اور محکوم کا نہیں، محبت و شفقت کا رابطہ قائم کیا۔ دونوں احترام آدمیت میں مساوی ہیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

22۔ اسی لب و دہن اور چند محدود حروف سے نہ ختم ہونے والے الفاظ بنتے جاتے ہیں اور لاکھوں زبانیں وجود میں آتی ہیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ مَنَامُکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ ابۡتِغَآؤُکُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور تمہارا رات میں سو جانا اور دن میں اس کا فضل (رزق) تلاش کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے، (دلائل کو توجہ سے) سننے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

23۔ نیند اللہ کی واضح نشانی ہے جس سے انسان کو وہ طاقت واپس مل جاتی ہے جو دن میں زندگی کی دوڑ دھوپ میں خرچ ہو گئی تھی۔ اگر انسان کی تخلیق ایک باشعور و باارادہ ہستی کی طرف سے نہ ہوئی ہوتی تو اندھے بے شعور مادے کو نیند کے ذریعے انسان کو ہمیشہ مستعد رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔

نیند ایک نعمت ہے۔ اس زندگی کا گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ دنیا ہمیشہ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں چلتی۔ پریشانی اور ذہنی تناؤ اس زندگی کا حصہ ہیں۔ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔ دوسری طرف دن بھر کی جفاکشی اور محنت کے بعد آپ کے اعصاب تھک جاتے ہیں۔ نیند ایک ایسی نعمت ہے جس میں انسان تمام پریشانیوں سے بے خبر سو جاتا ہے، خستہ اعصاب کو سکون ملتا ہے اور بدن کی صلاحیتیں دوبارہ تازہ دم ہو جاتی ہیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ یُرِیۡکُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَیُحۡیٖ بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور خوف اور طمع کے ساتھ تمہیں بجلی کی چمک دکھانا اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے کے لیے آسمان سے پانی برسانا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ بِاَمۡرِہٖ ؕ ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمۡ دَعۡوَۃً ٭ۖ مِّنَ الۡاَرۡضِ ٭ۖ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ تَخۡرُجُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک بار پکارے گا تو تم یکایک نکل آؤ گے۔

25۔ آسمان اور زمین امر خدا سے قائم ہیں۔ یعنی یہ دونوں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر آن اللہ کے حکم کے محتاج ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی اللہ اپنا امر اٹھا لے تو ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

وَ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے اور سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔

26۔ اللہ اس کائنات کا حقیقی مالک ہے اور کائنات اللہ کی مملوک ہے۔ اپنے وجود میں بھی وہ اپنے مالک کی محتاج ہے اور اپنی بقاء میں بھی محتاج ہے۔ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوۡنَ ، وہ بلحاظ تکوین تابع فرماں ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ہُوَ اَہۡوَنُ عَلَیۡہِ ؕ وَ لَہُ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿٪۲۷﴾ ۞ٙ

۲۷۔ اور وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے اعلیٰ شان و منزلت ہے اور وہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

27۔ اللہ کے لیے کوئی کام کسی دوسرے کام سے مشکل نہیں ہوتا کہ آسانی کا تصور آ جا ئے۔ یہ تعبیر بشری فہم کے مطابق اختیار کی گئی ہے کہ جہاں نقش اول مشکل ہوتا ہے،نقش دوم آسان تر ہوتا ہے۔ وَ لَہُ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی اللہ کی لامحدود قدرت، حیات، علم، مالکیت، عظمت اور جود و سخا کے چھوٹے چھوٹے اور محدود نمونے آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں۔ یہاں موجود محدود حیات اللہ کی لامحدود حیات کا نمونہ ہے اور انسانی ضمیر کے اندر جو عدالت ہے وہ اللہ کی بڑی عدالت گاہ کا نمونہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ و فی کل شی لہ اٰیۃ تدل علی انہ واحد ۔

ضَرَبَ لَکُمۡ مَّثَلًا مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ہَلۡ لَّکُمۡ مِّنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ شُرَکَآءَ فِیۡ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ فَاَنۡتُمۡ فِیۡہِ سَوَآءٌ تَخَافُوۡنَہُمۡ کَخِیۡفَتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ وہ تمہارے لیے خود تمہاری ایک مثال دیتا ہے، جن غلاموں کے تم مالک ہو کیا وہ اس رزق میں تمہارے شریک ہیں جو ہم نے تمہیں دیا ہے؟ پھر وہ اس میں (تمہارے) برابر ہو جائیں اور تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو جس طرح تم (آزاد) لوگ خود ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ عقل رکھنے والوں کے لیے ہم اس طرح نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں۔

28۔ مشرکین اللہ کو مالک تسلیم کرتے ہیں، اس کے بعد کسی مملوک کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس مثال میں یہ وضاحت ہے کہ تم اللہ کے دیے ہوئے مال میں اپنے مملوک غلام کو شریک کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو، لیکن یہ بات کس قدر نامعقول ہے کہ اللہ کے مملوک اور مخلوق کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡ مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۲۹﴾

۲۹۔ مگر ظالم لوگ نادانی میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں پس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٭ۙ۳۰﴾

۳۰۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

30۔ جس نے خلق فرمایا اسی نے اس مخلوق کے لیے نظام حیات (دین) مرحمت فرمایا: لہٰذا جس طرح کائنات کا نظام باہمی ہم آہنگی پر قائم ہے، اسی طرح دین اور فطرت میں بھی کاملاً ہم آہنگی ہے، بلکہ دین انسانی خمیر سے عبارت ہے۔ جیسے کھانا پینا فطری تقاضا ہے، اسی طرح دینداری بھی انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ فطرت و شریعت کی یہ وحدت دین قیم ہے۔ دین، انسانی جبلت سے قابل تفریق نہیں ہے۔

واضح رہے دین کے فطری ہونے کا مطلب یہ کہ انسان اپنی فطرت سے دینی کلیات کو سمجھ سکتا ہے، جیسے توحید، لیکن اس فطری تقاضے پر عمل کرنے کے لیے تفصیل کا جاننا پیغمبروں کی آمد پر موقوف ہے۔

(استفادہ از قاموس قرآن)