مُنِیۡبِیۡنَ اِلَیۡہِ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہونا۔

مِنَ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور جو گروہوں میں بٹ گئے، ہر فرقہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔

31۔32 ہر انحراف کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ نماز قائم کرو۔ مشرکین میں شامل نہ ہو۔ ان دو آیات میں یہ احکام آئے ہیں، اس میں خطاب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے، لیکن حکم میں سب شامل ہیں:

1۔ دین فطرت کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھو۔

2۔ اللہ کی طرف ہر مرحلے میں رجوع کرو۔

3۔ تقویٰ اختیار کرو۔

4۔ نماز قائم کرو۔

5۔مشرکین میں شامل نہ ہوں۔

6۔ اور جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی ہے ان میں بھی شامل نہ ہوں، کیونکہ شرک ہوس پرستی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے اور خواہشات کی بنیاد پر جو چیز قائم ہو گی، اس میں اختلاف ضرور آئے گا، چونکہ لوگوں کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔

وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوۡا رَبَّہُمۡ مُّنِیۡبِیۡنَ اِلَیۡہِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَہُمۡ مِّنۡہُ رَحۡمَۃً اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ بِرَبِّہِمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے رب کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک فرقہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔

لِیَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ ؕ فَتَمَتَّعُوۡا ٝ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ تاکہ جو ہم نے انہیں بخشا ہے اس کی ناشکری کریں، پس اب مزے اڑاؤ، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

34۔ لِیَکۡفُرُوۡا : لام برائے بیان عاقبت ہے۔ یعنی شرک کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کفر اختیار کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ لام امر غائب کے لیے ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ بنتا ہے:۔۔۔ نا شکری کرو اور مزے اڑاؤ۔ یہ تہدید کی صورت بنتی ہے۔

اَمۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوۡا بِہٖ یُشۡرِکُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے جو اس شرک کی شہادت دے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

35۔ دلیل کا واحد مصدر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر دلیل ہے تو اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی کی بنیاد پر ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے مربوط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ حکم کے بغیر بندہ جو عمل خود سے انجام دیتا ہے اور اسے اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔

وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً فَرِحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ اِذَا ہُمۡ یَقۡنَطُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور جب ہم لوگوں کو کسی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان کے برے اعمال کے سبب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔

36۔ جو شخص بھی ایک محکم اور استوار مؤقف پر قائم نہیں ہے وہ بدلتے حالات کی رو میں تنکے کی طرح بہ جاتا ہے۔ خوشحالی پر اترانا اور گردش ایام میں نا امیدی کی تاریکی میں ڈوب جانا بے مؤقف انسان کا شیوہ ہو سکتا ہے، جبکہ اللہ پر پختہ یقین رکھنے والے لوگ جبل راسخ کی طرح ہوتے ہیں اور وہ سخت آندھیوں سے نہیں ہلتے۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے؟ مومنین کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ‌السَّبِیۡلِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ پس تم قریبی رشتہ داروں کو اور مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دو، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی چاہتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

38۔ آیت کے مکی ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ”قرابتداروں کا حق دے دو“ سے مراد ہر قسم کا احسان ہے اور اگر اسے مدنی مان لیا جائے تو اس سے مراد خمس ہو سکتا ہے۔ سیاق آیت سے عندیہ ملتا ہے کہ قرابتداروں، مساکین اور مسافروں کے لیے کوئی حق معین ہو چکا تھا جس کے بارے میں اس آیت میں حکم ہوا: ”وہ حق دے دو“۔

وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرۡبُوَا۠ فِیۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جو سود تم لوگوں کے اموال میں افزائش کے لیے دیتے ہو وہ اللہ کے نزدیک افزائش نہیں پاتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو پس ایسے لوگ ہی (اپنا مال) دوچند کرنے والے ہیں۔

39۔ اپنے کاربار میں سہولت اور دولت میں اضافے کے لیے با اثر لوگوں کو تم جو مال و تحائف پیش کرتے ہو اس سے سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ سرمائے میں اضافہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس سے تمہاری دولت بڑھے گی۔

ربا سے مراد یہاں اصطلاحی ”سود“ نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کا اضافہ مقصود ہے اور نہ ہی زکوٰۃ سے مراد اصطلاحی زکوٰۃ ہے، بلکہ ہر قسم کا صدقہ مراد ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ رَزَقَکُمۡ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّفۡعَلُ مِنۡ ذٰلِکُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

40۔ مشرکین اللہ کو خالق تسلیم کرتے ہیں، رازق تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنے معبودوں میں سے بعض کو رزق کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس آیت میں خلق کے ساتھ رزق کا بھی ذکر اس لیے کیا ہے کہ رزق بھی تخلیق مسلسل کا نام ہے۔ لہٰذا رازق خالق سے جدا نہیں ہو سکتا۔