دین قیم یعنی فطرت و شریعت کی وحدت


فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٭ۙ۳۰﴾

۳۰۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

30۔ جس نے خلق فرمایا اسی نے اس مخلوق کے لیے نظام حیات (دین) مرحمت فرمایا: لہٰذا جس طرح کائنات کا نظام باہمی ہم آہنگی پر قائم ہے، اسی طرح دین اور فطرت میں بھی کاملاً ہم آہنگی ہے، بلکہ دین انسانی خمیر سے عبارت ہے۔ جیسے کھانا پینا فطری تقاضا ہے، اسی طرح دینداری بھی انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ فطرت و شریعت کی یہ وحدت دین قیم ہے۔ دین، انسانی جبلت سے قابل تفریق نہیں ہے۔

واضح رہے دین کے فطری ہونے کا مطلب یہ کہ انسان اپنی فطرت سے دینی کلیات کو سمجھ سکتا ہے، جیسے توحید، لیکن اس فطری تقاضے پر عمل کرنے کے لیے تفصیل کا جاننا پیغمبروں کی آمد پر موقوف ہے۔

(استفادہ از قاموس قرآن)