آیت 29
 

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡ مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۲۹﴾

۲۹۔ مگر ظالم لوگ نادانی میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں پس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ ایک طرف خواہشات کا غلبہ ہو اور دوسری طرف جہالت ہو تو ایسے لوگوں کے لیے شرک جیسے ظلم کے ارتکاب کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ چنانچہ اگر عالم اپنی خواہشات کی پیروی کرے تو یہ امکان رہتا ہے کہ اس کا علم، اسے خواہشات سے کسی مرحلے میں روک سکتا ہے۔

۲۔ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡ مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ: جس سے ہدایت کا واحد سرچشمہ ’’اللہ‘‘ ہاتھ اٹھائے اسے ہدایت اور کون دے گا؟ مَنْ اَضَلَّ اللہُ جسے اللہ گمراہ کرے کا مطلب یہ ہے کہ جسے اللہ ہدایت نہ دے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿﴾ (۵ مائدہ: ۵۱)

بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔

ظالموں یعنی مشرکوں نے ہدایت کے سارے ذرائع مسترد کر دیے اور ہدایت کے قابل نہ رہے تو اللہ ایسے ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا یعنی جبراً ہدایت ان پر مسلط نہیں کرتا چونکہ وہ اختیاری ہدایت قبول نہیں کرتے ہیں اور جبری ہدایت اللہ کو قبول نہیں ہے۔ جبری ہدایت تو قیامت کے دن سب کو حاصل ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ ضلالت کے دو سرچشمے ہیں: خواہش پرستی اور جہالت۔

۲۔ جو اختیاری ہدایت کے لیے آمادہ نہیں ہے، اللہ اسے جبری ہدایت نہیں دیتا۔


آیت 29