آیت 22
 

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ: اللہ کے واحد رب اور مدبر ہونے کے شواہد میں سے ایک شاہد یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق وہی ہے اور رب اور معبود وہ ہوتا ہے جو خالق ہے۔

۲۔ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ: اسی لب و دہن اور محدود حروف سے نہ ختم ہونے والے الفاظ بنتے ہیں اور لاکھوں زبانیں وجود میں آتی ہیں۔ زبان انسان کی بقا و ارتقا کے لیے ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ زبانوں کا اختلاف اس صلاحیت کی وجہ سے ہے جو اللہ نے انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ جس سے انسان اپنے ما فی الضمیر کا اظہار لفظوں کے ذریعے آسانی سے کر دیتا ہے۔ ورنہ ایک معنی کو سمجھانے کے لیے خود اس معنی کو پیش کرنا پڑتا۔ مثلاً کسی کو پانی سمجھانا ہو تو اس کے لیے اگر لفظ کا آسان ذریعہ نہ ہوتا تو خود پانی کو سامنے کر کے سمجھانا پڑتا۔ اختلاف زبان سے اختلاف لہجہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور رنگوں کے اختلاف سے ایک دوسرے کی شناخت میں مشکل پیش نہیں آتی اور قبائل و اقوام میں امتیاز آ جاتا ہے۔

۳۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ: اس دلیل کواہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ زبانوں اور رنگوں کے اختلاف میں نوع انسانی کی بقا و ارتقا کے کون سے راز پنہاں ہیں۔ اگر سب کا رنگ اور زبان و لہجہ کلام ایک ہوتا تو کیا کیا مشکلات پیش آتیں۔ دنیا کا نظام ایک دوسرے سے امتیاز پر قائم ہے۔ اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو ظالم سے مظلوم کی شناخت نہ ہوتی۔ مدعی سے مدعا علیہ کی پہچان نہ ہوتی۔ کلوننگ کو ناجائز سمجھنے والے اسی بات سے استدلال کرتے ہیں۔


آیت 22