آیت 25
 

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ بِاَمۡرِہٖ ؕ ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمۡ دَعۡوَۃً ٭ۖ مِّنَ الۡاَرۡضِ ٭ۖ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ تَخۡرُجُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک بار پکارے گا تو تم یکایک نکل آؤ گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ: اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور ربوبیت و مدبریت کے شواہد میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان اور زمین امر خدا سے قائم ہیں۔یہ دونوں صرف اپنے وجود میں آنے کے لیے اللہ کا محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بھی اللہ کے محتاج ہیں۔ چنانچہ اجرام سماوی اور زمین، اپنی گردش اور قوت جاذبہ و دافعہ میں تعادل کی وجہ سے قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اسی تعادل کے ذریعے اس نظام کی تدبیر ہو رہی ہے۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ جاذبہ اور دافعہ اللہ کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہے۔ یہ حکم خدا ہے جو کل کائنات میں نافذ ہے۔

۲۔ ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمۡ دَعۡوَۃً: اسی ذات کی طرف سے جب یہ حکم آئے گا تو تم کو زمین کے شکم سے نکلنا پڑے گا جس کا حکم کل کائنات کے ذرے ذرے پر نافذ ہے اس کا حکم تمہارے ذرات پر بھی نافذ ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ واضح رہے کہ ان آیات کا رخ ان مشرکین کی طرف ہے جو غیر اللہ کو رب سمجھتے تھے اور تدبیر حیات میں انہی ارباب کو موثر سمجھتے تھے۔ وہ ان معبودوں کی عبادت اپنی دنیوی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے کرتے تھے اور وہ حیات بعد الموت کے قائل نہ تھے۔ لہٰذا ان آیات میں ایک تو ان شواہد کا ذکر ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر دلالت کرتے ہیں، دوسرے وہ شواہد جو حیات بعد الموت پر اللہ کے قادر ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔


آیت 25