آیت 30
 

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٭ۙ۳۰﴾

۳۰۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ: مشرکین کی طرف سے ہونے والی تکذیب و تمسخر اور خواہش پرستی کی

پرواہ کیے بغیر اپنی ساری توجہ دین پر مرکوز رکھیں اور اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں۔

۲۔ حَنِیۡفًا: پوری یکسوئی کے ساتھ باطل نظریات سے لاتعلق اور تمام غیر اللہ سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر تکیہ کر کے،

۳۔ فِطۡرَتَ اللّٰہِ: اللہ کی فطرت کی طرف اپنی ساری توجہ مرکوز رکھیں۔ اعنی فطرۃ اللہ ۔ جس دین کی طرف اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنے کا حکم ہے وہ اللہ کی فطرت سے عبارت ہے۔ وہ دین فطری تقاضوں سے عبارت ہے۔ دین ایک جبری اور مسلط کردہ چیز نہیں ہے۔ وہی فطرت اور جبلت میں موجود تقاضے ہیں۔

۴۔ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا: فطرت وہ اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور دین بھی اسی اساس اور بنیاد پر قائم ہے چونکہ دین زندگی کے لیے ایک دستور حیات کا نام ہے۔ جس نے حیات بخشی ہے اسی نے اس حیات کے لیے دستور عنایت فرمایا۔ لہٰذا اس دستور اور حیات میں تصادم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ دستور اس حیات کے تمام تقاضوں کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق فرمائی تو اس وقت کائنات کی ہر چیز میں وہ باتیں ودیعت فرمائیں جو ان چیزوں کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿﴾ (۲۰ طہ: ۵۰)

موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

واضح رہے فطرت کے تقاضے خلقت کے ماوراء میں ودیعت ہیں خود خلقت نہیں ہیں جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے کہ خلقت کے بعد ہدایت اس میں ودیعت ہوئی ہے۔ پس جس طرح تمام موجودات کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہدایات اور سوجھ بوجھ ان میں ودیعت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

فطرت میں اس بات کی سوجھ بوجھ ودیعت فرمائی کہ معاشروں میں عدل و انصاف ہونا چاہیے۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ عدل و انصاف کس طرح قائم ہو سکتا ہے:

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪﴿﴾ (۹۱ شمس: ۷ ۔ ۸)

اور (قسم ہے) نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا، پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔

پس فطرت میں بدکاری اور اس سے بچنے کی سوجھ بوجھ موجود ہے۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی ہے، بدکاری کون سی چیزیں ہیں اور اس سے بچنے کے طریقے کون سے ہیں۔

اللہ نے توحید اور معرفت رب فطرت میں ودیعت فرمائی۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ معرفت رب کے تقاضے کیا ہیں۔

لہٰذا فطرت اور شریعت میں اگر کوئی فرق ہے تو اجمال و تفصیل کا فرق ہے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام فطرت کے اجمال کی تفصیل بیان کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ اسی لیے فطرت، انبیاء علیہم السلام کی آواز کوپہچانتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو پذیرائی ملتی ہے۔ ورنہ غیر فطری مسلط شدہ چیز کو پذیرائی نہ ملتی اور ندائے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کا مثبت جواب بَلٰی نہ ملتا۔

چنانچہ اعراف آیت ۱۷۲ کے ذیل میں ہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ خالق نے تخلیق انسان کے موقع پر اولاد آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کی یہ صورت ہو سکتی ہے: انسان کی تخلیق کے موقع پر اس کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی۔ یہ معرفت جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ماورائے خلقت ودیعت ہوئی ہے۔ جیسا کہ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے کھربوں خلیات کی پیدائش ایک خلیے سے ہوئی اور جو سبق ابتدائی خلیے میں موجود جین (Gene)کو پڑھایا گیا وہ آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہوتا گیا۔

انسان نے اب تک جس حد تک عالم خلیات میں جھانک کر دیکھا ہے اور تخلیق و تعمیر پر مامور اس محیر العقول لشکر کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں کا مشاہدہ کیا ہے اس سے یہ بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا تھا تو نسل انسانی کی جبلت کے ابتدائی خلیے کو اپنی ربوبیت کا درس پڑھایا ہو پھر اس سے اس کا اقرار لیا ہو۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:

لِیَسْتَاْدُوہُمْ مِیثَاقَ فِطْرَتِہِ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ باب المختار خ ۱)

انہیں اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کو اللہ کی فطرت کا عہد و میثاق یاد دلائیں۔

اور یہ سوال جو پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا عہد و میثاق ہم سے لیا گیا ہے ہمیں یاد کیوں نہیں حضرت امام صادقؑ اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں:

ثبتت المعرفۃ فی قلوبہم و نسوا الموقف ۔ (المحاسن ۱: ۲۴۱)

یعنی لوگ واقعہ بھول گئے مگر معرفت دلوں میں نقش ہو گئی

ہم اپنے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں: کلاس بھول گئے مگر سبق یاد ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مشہور ہے:

کل مولود یولد فہو علی الفطرۃ و انما ابواہ یہودانہ او ینصرانہ ۔ (تصحیح الاعتقاد: ۱)

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

دین کے فطری ہونے کے سلسلے میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

i۔ فطرت کے تقاضے کبھی بیرونی منفی عوامل کی وجہ سے دب جاتے ہیں۔ مثلاً علم دوستی بھی انسان کی فطرت میں بالاتفاق موجود ہے لیکن منفی تربیت کی وجہ سے علم دوستی کا رجحان ناپید ہو جاتا ہے۔ جب یہ بیرونی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں تو فطرت سلیمہ کو اپنا تقاضا پورا کرنے کا موقع مل جاتا ہے:

وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۳۲)

اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں۔

جب انسان کے دل و دماغ سے تمام بیرونی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں تو اس وقت انسان کو اپنی فطرت کے ساتھ سرگوشی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس وقت فطرت کو اس کے خالق کے سوا کوئی سہارا نظر نہیں آتا۔

ii۔ نفسیاتی ماہرین کو اس بات کاعلم ہو گیا کہ جمال پرستی، علم اور احسان دوستی انسانی فطرت میں رچی بسی ہے۔ بعد میں ماہرین پر یہ بات واضح ہو گئی کہ خدا پرستی بھی انسان کی فطرت میں رچی بسی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ باقی فطری باتوں کے لیے خدا پرستی بنیاد ہے۔ یعنی ذوق جمالیات کی بنیاد ذوق بندگی سے ہے: اِنَّ اللہ َ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ۔ (الکافی ۶: ۴۳۸ بروایت امیر المومنین علیہ السلام) علم دوستی کی بنیاد بھی معرفت رب کے حصول سے ہے اور احسان دوستی کا جذبہ بھی انسان کو اللہ کی عبودیت سے ملا ہے۔ چنانچہ انسان ایسے لوگوں کے عاشق ہوتے ہیں جو دوسروں پر احسان کرتے ہیں۔

iii۔ دین اگر فطری نہ ہوتا تو اسے دوام نہ ملتا۔ چنانچہ غیر فطری امور بیرونی عوامل کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں جب کہ دین ما قبل تاریخ کے زمانوں میں بھی رائج تھا۔

۵۔ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ: اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ تخلیق سے مراد فطرت ہے۔ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ تمام انسانوں کی فطرت ایک ہے۔ نوع ایک ہے۔ مصلحت ایک ہے۔ رہنما بھی ایک ہے۔ فطرت ہی رہنما ہے۔ ہادی میں تبدیلی نہیں اور ہدایت میں بھی تبدیلی نہیں ہے۔ اگر فطرت میں انحراف آجائے تو دین دوبارہ فطرت کی طرف واپس کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین تمام ادوار اور تمام اقوام کے لیے ایک ضرورت ہے۔

۶۔ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ: فطرت اور شریعت کی یہ وحدت، دین قیم ہے۔ دین، انسانی فطرت سے قابل تفریق نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ دین کے فطری ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اقامہ دین کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں: فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ۔۔۔۔

۲۔دین ہر انسان کی فطرت و جبلت میں رچی بسا ہے: فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ۔۔۔۔

۳۔ دین کو فطرت کا سہارا حاصل ہے اور محکم ہے: ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۔۔۔۔

۴۔ فطری تقاضے ماند پڑ جاتے ہیں نابود نہیں ہوتے: ا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 30