کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۱۱﴾

۱۱۔ ان کا حال بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا سا ہو گا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، پس اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے گرفت میں لے لیا اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

11۔ ان کفار کی فکری و عملی روش فرعونیوں کی طرح ہے، جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا اور اپنے جرائم کے انجام کو پہنچ گئے۔ اسی طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کی تکذیب کرنے والوں کا انجام بھی ایسا ہی ہو گا۔

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَتُغۡلَبُوۡنَ وَ تُحۡشَرُوۡنَ اِلٰی جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ﴿۱۲﴾

۱۲۔(اے رسول) جنہوں نے انکار کیا ہے ان سے کہدیجئے: تم عنقریب مغلوب ہو جاؤ گے اور جہنم کی طرف اکھٹے کیے جاؤ گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

12۔ یہ آیت جنگ بدر میں قریش کی شکست فاش کے بعد نازل ہوئی،جب حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودیوں کو بازار قینقاع میں جمع کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی نیز انہیں تنبیہ کی کہ کہیں ان کا حشر بھی وہی نہ ہو جائے جو قریش کا ہوا۔ یہودیوں نے کہا: ہم قریش کی طرح فنون حرب سے نابلد نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ ہوئی تو آپ ہماری طاقت دیکھ لیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں ایک صریح پیشگوئی ہے کہ آئندہ بھی جنگیں ہوں گی اور ان جنگوں میں کفار مغلوب ہو جائیں گے اور فتح و نصرت مسلمانوں کی ہو گی۔

قَدۡ کَانَ لَکُمۡ اٰیَۃٌ فِیۡ فِئَتَیۡنِ الۡتَقَتَا ؕ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اُخۡرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوۡنَہُمۡ مِّثۡلَیۡہِمۡ رَاۡیَ الۡعَیۡنِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ﴿۱۳﴾

۱۳۔ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) باہم مقابل ہوئے ایک نشانی تھی، ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا وہ (کفار) ان (مسلمانوں) کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہے تھے اور خدا جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے اس کی تائید کرتا ہے، صاحبان بصیرت کے لیے اس واقعے میں یقینا بڑی عبرت ہے۔

13۔ سنہ 2 ہجری میں واقع ہونے والی جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے، جہاں جنگی ساز و سامان اور تعداد وغیرہ کے لحاظ سے مومنین اور کفار میں نمایاں فرق کے باوجود مومنین کو فتح و نصرت حاصل ہوئی، جو ایک معجزہ تھا۔ یہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقانیت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ اس جنگ میں دشمن کے ایک ہزار جنگجوؤں کے مقابلے میں 77 مہاجرین اور 236 انصار پر مشتمل مسلمانوں کے صرف 313 سپاہی تھے۔ ایک سو گھوڑوں کے مقابلے میں صرف دو گھوڑے تھے اور تلواروں کی مقدار بھی آٹھ سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے باوجود دشمن کو ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کے صرف بائیس افراد شہید ہوئے، جب کہ دشمن کے ستر افراد مارے گئے اور اتنے ہی اسیر ہو گئے۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

14۔ اسلام کے نزدیک مال اگر خود مقصد ہے تو برا ہے اور اگر کسی نیک مقصد کا ذریعہ ہو تو اسے قرآن نے خیر کہا ہے۔ بالکل کشتی کے لیے پانی کی طرح، یہ پانی اگر کشتی کے نیچے رہے تو پار ہونے کے لیے بہترین ذریعہ ہے اور یہی پانی اگر کشتی کے اندر آ جائے تو اسی پانی میں ہلاکت ہے۔

قُلۡ اَؤُنَبِّئُکُمۡ بِخَیۡرٍ مِّنۡ ذٰلِکُمۡ ؕ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔ کہدیجئے:کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿ۚ۱۶﴾

۱۶۔یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! بلاشبہ ہم ایمان لائے، پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آتش جہنم سے بچا۔

اَلصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡمُنۡفِقِیۡنَ وَ الۡمُسۡتَغۡفِرِیۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ﴿۱۷﴾

۱۷۔ یہ لوگ صبر کرنے والے، راست باز، مشغول عبادت رہنے والے، خرچ کرنے والے اور سحر (کے اوقات) میں طلب مغفرت کرنے والے ہیں۔

17۔ اہلِ تقویٰ کی پانچ خصلتیں بیان فرمائی ہیں: صبر، سچائی، عبادت، انفاق اور سحر خیزی یعنی رات کے آخری حصّے میں استغفار۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: جو شخص اپنی وتر کی نماز میں حالت قیام میں ستر مرتبہ استغفر اللّہ و اتوب الیہ ایک سال تک لگاتار پڑھتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سحر کے وقت طلب استغفار کرنے والوں میں شمار فرمائے گا اور اس کے لیے مغفرت واجب ہو جائے گی (المیزان 3: 119)

شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾ ۞ؒ

۱۸۔اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

18۔ یہاں توحید و عدل پر تین شہادتوں کا ذکر ہے۔ اوّل خود اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل قائم کرنے والا ہے۔ چنانچہ اس کی کتابِ آفاق و انفس کا ہر صفحہ اور ہر سطر اس کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف پر دلالت کرتی ہے اور ذرے سے لے کر کہکشاؤں تک نظام کی وحدت، خالق کی وحدت کی دلیل ہے۔ یا من دل علی ذاتہ بذاتہ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔ دوم فرشتوں کی شہادت۔ چونکہ فرشتے نظام کائنات کے کارندے ہیں اس لیے اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف کا علم رکھتے ہیں اور شہادت کا حق صرف انہیں حاصل ہوتا ہے جو علم رکھتے ہوں۔ سوم صاحبان علم جو صحیفۂ آفاق و انفس کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں: رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۔(آل عمران ۱۹۱)

اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی انہوں نے علم حاصل ہو جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتا ہے تو بے شک اللہ (اس سے)جلد حساب لینے والا ہے۔

19۔ الف: مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: لانسبن الاسلام نسبۃ لم ینسبھا احد قبلی۔ الاسلام ھو التسلیم، و التسلیم ھو الیقین، و الیقین ھو التصدیق، و التصدیق ھو الاقرار، و الاقرار ھو الاداء، و الاداء ھو العمل (نہج البلاغہ) ”میں اسلام کی ایسی تعریف کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی: اسلام تسلیم سے عبارت ہے اور تسلیم یقین ہے اور یقین تصدیق ہے اور تصدیق اعتراف ہے اور اعتراف فرض کی ادائیگی سے ہوتا ہے اور فرض کی ادائیگی عمل ہے۔ “

ب: ہر زمانے میں انسان کو نجات کا راستہ دکھانے والا ایک ہی دین اللہ کی طرف سے آتا رہا ہے جو دین اسلام ہے۔ اس دین واحد میں اہلِ کتاب نے اختلاف ڈال دیا۔ اس کی وجہ ان کی لا علمی نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ دین الہٰی میں اختلاف کی گنجائش نہیں بلکہ اس کی وجہ ان کی بے حد جاہ پرستی تھی۔

ج: ادیان عالم کے ماہرین جانتے ہیں کہ 325ء میں قسطنطنیہ کے بادشاہ نے مسیحی مذہب کے توحید پرستوں پر کفر و الحاد کا فتوی لگایا، ان کی کتابوں کو نذر آتش کیا، جب تثلیث پر مبنی مذہب کی جڑیں مضبوط بنا دی گئیں تو 628ء میں ایک قانون کے ذریعہ ان توحید پرستوں کی نسل کشی کی گئی۔ (مراغی: 3:120)

فَاِنۡ حَآجُّوۡکَ فَقُلۡ اَسۡلَمۡتُ وَجۡہِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ؕ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡاُمِّیّٖنَ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔(اے رسول) اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو ان سے کہدیجئے: میں نے اور میری اتباع کرنے والوں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے اور پھر اہل کتاب اور ناخواندہ لوگوں سے پوچھیے: کیا تم نے بھی تسلیم کیا ہے؟ اگر یہ لوگ تسلیم کر لیں تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ موڑ لیں تو آپ کی ذمے داری تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر خوب نظر رکھنے والا ہے۔